پاسپورٹ آفس میں ٹوکن کے حصول کے لئے مردوں کی ایک لمبی لائن
میں لگی ہوئی تھی۔ ذرا بائیں طرف عورتوں
کی لائن تھی۔ عورتیں اپنی لائن سے کوائف
کا اندراج کرواتیں اور مردوں سے ڈِیل کرنے والے آپریٹر سے ٹوکن کا پرنٹ وصول
کرتیں۔ اسی وجہ سے یہاں مردوں کی لائن میں کچھ زیادہ رش تھا۔ایک صاحب جو ابھی ابھی اپنی بیٹی کے ساتھ پاسپورٹ آفس
داخل ہوئے تھے، لائن میں لگنے کی بجائے سیدھا اپنی بیٹی کو مردوں کی لائن والے
آپریٹر کے پاس لے آئے ۔ وہ قطار کا اصول
توڑکر اپنی بیٹی کو جلد ٹوکن دلوانے میں مصروف تھے کہ عورتوں کی لائن میں لگی ایک
آنٹی نے بھانپ لیا۔ فوراً ان کی بیٹی کے پاس آئیں اور اسے اونچی آواز میں لائن میں
لگنے کو کہا۔ ان آنٹی کی بدولت پاسپورٹ آفس میں سب کو صاحب کی چالاکی کا علم ہو
چکا تھا۔ نا چاہتے ہوئے بھی بیٹی عورتوں کی لائن کے آخر میں جا کر کھڑی ہو
گئی۔تھوڑی دیر بعد
جب سب لوگ دوبارہ اپنے اپنے دھیان میں لگ گئے اورسوشل ورکر آنٹی
بھی کسی اور طرف متوجہ ہو گئیں تو صاحب نے بڑی چالاکی سے دوبارہ اپنی بیٹے کا ہاتھ
پکڑا اور اسے مردوں والی لائن کے آپریٹر کے پاس لے گئے۔ اور پرنٹ وصول کرنے والی
عورتوں کی آڑ میں اپنی بیٹی کے کوائف کا اندراج بھی مردوں والے آپریٹر سے کروا کر
ٹوکن وصول کر لیا۔ یہ سب اتنی خاموشی سے ہوا کہ کسی کو پتہ ہی نہ چلا۔ مگر انور یہ
سب دیکھ رہا تھا۔ صاحب بیٹی کے ساتھ ٹوکن لئے واپس مڑے تو ان کی بے شرمی پر انور انہیں شرم کے مارے اس سے
زیادہ کچھ نہ کہہ سکا۔ "جناب! انسان کی عزت اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی
ہے"۔
مگر عزت کی پروا کسے تھی۔ صاحب کو تو ٹوکن چاہیئے تھا جو
انہیں مل چکا تھا۔ اسی لئے وہ طنزیہ انداز میں انور کو "اچھا جی !" کہہ
کر خوشی خوشی اپنی را ہ چل دئے۔
حضور یہ معاملہ عزت کا نہیں بلکہ حرام خوری کا ایک طریقہ ہے ۔ حرام خوری جسے عرفِ عام میں کرپشن کہا جاتا ہے اور جس سے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے سختی سے منع فرمایا ہے ۔ پھر یہ لوگ اپنا سینہ ٹھونک کر کہتے ہیں ”میں مسلمان ہوں“۔
جواب دیںحذف کریںجی ہاں ! افتخار صاحب!
حذف کریںیہ حرام خوری ہی ہے۔ خدا خوفی تو ایسے لوگوں میں پہلے ہی نہیں ہوتی۔ اپنی عزت کا خیال بھی نہیں ہوتا۔
بہت شکریہ۔
صرف عزت ہی نہیں "بے عزتی" بھی اپنے ہی ہاتھ میں ہوتی ہے
جواب دیںحذف کریںلیکن
خیر کوئی بات نہیں عزت آنے جانے والی چیز ہے بندہ بس "ڈھیٹ" ہونا چاہئے
اسلم فہیم بھائی بلاگ پر تبصرے کا بہت شکریہ۔
حذف کریںہاں جی! بے عزتی بھی اپنے ہی ہاتھ میں ہوتی ہے۔
پھر ایسے لوگوں کا کیا حل نکالا جائے۔ چھترول نی ہونی چاہیئے؟
بے عزتی کو محسوس کرو تو زیادہ لگنا شروع ہوجاتی ہے اس لیئے ان صاحب نے محسوس نہیں کی
جواب دیںحذف کریںہاہاہا!
حذف کریںجی ہاں! بے عزتی ، ڈر اور سردی! جتنا محسوس کرو گے اتنا ہی لگے گی۔
ان صاحب کو اللہ ہی ہدایت دے۔ ایک پڑھے لکھے کے لئے اتنے ہی الفاظ کافی ہوتے ہیں۔ اگر پھر بھی وہ باز نہ آئے تو چھتر کے علاوہ کوئی حل نہیں۔
Buhut khoob kaha Asad Sahab ... Main bs itna kehna chahta hun k
حذف کریںBaizti tow un ki hoti hai jin ki izzat hoti hai ... hahah
دوسروں کی حق مارنے ،اصول توڑنے پر بڑے خوش ہوتے ہیں مگر جب ان کے ساتھ ایسا ہو تو بالکل برداشت نہ کریں گے ۔
جواب دیںحذف کریںایہ سلسلہ ختم ہونے والا کہاں کیونکہ آنے والی نسل کو بھی یہ سکھایا جارہا ہے۔بلکہ اولاد کو مشق کروائی جارہی ہے ۔
کہاں گئے وہ لوگ جو برائی کرنے اور برائی میں مدد سے روکا کرتے تھے ۔
کوثر صاحبہ! آپ کو اپنے بلاگ پر دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔
حذف کریںبہت اچھی نشاندہی کی آپ نے۔ اپنی اولاد کو بھئی یہی سکھایا موصوف نے۔ بلکہ عملاً کر کے دکھایا۔
اللہ سب کو برائی سے بچنے اور روکنے کی توفیق دے۔
اس کو سروائیول آف دا فٹسٹ کہتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںوہ کیسے بھائی؟
حذف کریںمیرے خیال میں تو اسے "پھینٹی لگانے والے کی تلاش کرنا" کہتے ہیں۔