یہ سچ ہے کہ ہمارے ملک میں مسائل بہت زیادہ ہیں۔ آئے دن کوئی
نہ کوئی انسان اپنی مسیحائی کا دعوی کر بیٹھتا ہے اور لوگوں کے جذبات اور نفسیات سے کھیلتے ہوئے انہیں
احساس دلاتا ہے کہ میں ہوں وہ مسیحا جو تمہاری تقدیر بدل دے گا۔ اتنے دن میں یہ ہو
جائے گا ، اتنے دنوں میں یہ کر دوں گا۔حقیقت میں زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں
ہوتا۔ ملکی مسائل کا حل کسی شارٹ کٹ سے نہیں
نکل سکتا۔جو قوم زمانے کی دوڑ میں جتنا پیچھے رہ جائے اسے آگے آنے کے لئے اتنی ہی محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔آپ مانیں یا نہ مانیں ، یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ ہماری قوم ہمیشہ سے کسی شارٹ کٹ کے انتظار میں رہی ہے۔ یعنی کام بھی نہ کرنا پڑے اور ملک میں امن، خوشحالی، ترقی ،اچھی انتظامیہ بھی آجائے۔ یہی وجہ ہے کہ نفسیاتی طور پر کمزور لوگ ڈبل شاہ سے لے کر انجینئر آغا وقار تک موسمی لٹیروں اور فراڈیوں کے چنگل میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔لوگ حقیقت سے آنکھیں چرانا چاہتے ہیں۔ سیاسی میدان میں بھی جب بھی تبدیلی کا نعرہ لگتا ہے تو ہر دوسرے انسان میں ان کو اپنا مسیحا نظر آنے لگتا ہے۔ آجکل نظام بدلنے کا دعوی طاہر القادری صاحب نے کیا ہے۔ میں ان کی ذات ، شخصیت اور ماضی سے بالاتر ہو کر بات کرنا چاہتا ہوں۔ بالفرض اگر وہ اپنے مطالبات منوا بھی لیتے ہیں تو کیا ہمارے ملک میں ایک حقیقی انقلاب آ جائے گا؟ اگر غیرجانبدار الیکشن کمیشن بن جاتا ہے اور شفاف الیکشن ہو جاتے ہیں تو کیا پھر بھی ایک عام آدمی الیکشن لڑسکے گا؟ پھر بےروز گاری ختم ہوجائے گی؟ کرپشن ختم ہو جائے گی؟ میرے خیال میں بالکل نہیں! جمہوریت خواہ کتنی ہی اچھی حالت میں کیوں نہ ہو نظام ہی ایسا ہے کہ بے شعور قوموں کے لئے اس میں کوئی گنجائش نہیں۔ جب تک ایک عام ووٹر میں اتنا شعور نہیں ہو گا کہ اس کے ووٹ کا غلط استعمال قوم کا کتنا نقصان کر سکتا ہے ، جمہوریت کا کوئی فائدہ نہیں۔ نظام غلط ہے ، میں مانتا ہوں مگر کیا قادری صاحب کے فارمولے سے یہ درست ہو جائیگا۔ بالکل نہیں۔ ذرا سوچئے! الیکشن کمیشن دوبارہ بن گیا، شفاف الیکشن ہو گئے، تب نظام بدل جائیگا؟ جی نہیں پھر بھی صرف وہی آدمی الیکشن لڑ سکے گا جو امیر ہو ۔ عام ووٹر کو پھر بھی ووٹ استعمال کرنے کی تمیز نہیں ہو گی۔ پھر بھی لوگ اس کو ووٹ دیں گے جن کے وہ مرید ہوں یا جو ان کو گھی کا ڈبہ دے۔ ہاں غربت ہے، دہشت گردی ہے، بے روزگاری ہے وغیرہ وغیرہ یہ ایک نفسیاتی اپیل ہے اور لوگ ایسے بیانات میں اپنے لئے کشش محسوس کرتے ہیں۔ اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والا ہر شخص ان ڈائلاگز کو استعمال کرتا ہے۔ ہمیں دلیل سے بات کرنی چاہیئے اور دیکھنا چاہیئے کہ متبادل حل ہے بھی سہی؟ اگر ہے تو کیا ہے؟ میرے دوست کہتے ہیں کہ موجودہ نظام میں غریب آدمی مجبور ہو جاتا ہے اور مجبور ہو کر وڈیروں اور سیاسی ٹھیکیداروں کو ووٹ دیتا ہے۔ غریبی اور بے غیر تی میں بہت بڑا فرق ہے۔ غربت ذلت نہیں ہوتی بلکہ اگر غریب آدمی بے غیرت ہو تو زندگی اس کے لئے ذلت بن جاتی ہے۔ویسے بھی قادری صاحب کے پاس ایسا کون سا فارمولا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مستقبل میں غریب آدمی بے و قوف نہیں بنے گا۔ بات یہ ہے کہ جمہوریت میں طاقت کا اصل سر چشمہ عوام ہوا کرتے ہیں۔ جب طاقت کا اصل سرچشمہ ہی سیاسی نا بالغ، ان پڑھ اور کم فہم لوگ ہوں تو طاقت بھی کھوٹے سکوں کے پاس ہوا کرتی ہے۔ ہمیں کرنا یہ چاہیئے کہ لوگوں میں موثر تعلیم کے ذریعےشعور اور عزتِ نفس پیدا کریں۔ جب لوگ سیاسی طور پر با شعور ہو گئے تو جمہوری نظام خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔
نکل سکتا۔جو قوم زمانے کی دوڑ میں جتنا پیچھے رہ جائے اسے آگے آنے کے لئے اتنی ہی محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔آپ مانیں یا نہ مانیں ، یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ ہماری قوم ہمیشہ سے کسی شارٹ کٹ کے انتظار میں رہی ہے۔ یعنی کام بھی نہ کرنا پڑے اور ملک میں امن، خوشحالی، ترقی ،اچھی انتظامیہ بھی آجائے۔ یہی وجہ ہے کہ نفسیاتی طور پر کمزور لوگ ڈبل شاہ سے لے کر انجینئر آغا وقار تک موسمی لٹیروں اور فراڈیوں کے چنگل میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔لوگ حقیقت سے آنکھیں چرانا چاہتے ہیں۔ سیاسی میدان میں بھی جب بھی تبدیلی کا نعرہ لگتا ہے تو ہر دوسرے انسان میں ان کو اپنا مسیحا نظر آنے لگتا ہے۔ آجکل نظام بدلنے کا دعوی طاہر القادری صاحب نے کیا ہے۔ میں ان کی ذات ، شخصیت اور ماضی سے بالاتر ہو کر بات کرنا چاہتا ہوں۔ بالفرض اگر وہ اپنے مطالبات منوا بھی لیتے ہیں تو کیا ہمارے ملک میں ایک حقیقی انقلاب آ جائے گا؟ اگر غیرجانبدار الیکشن کمیشن بن جاتا ہے اور شفاف الیکشن ہو جاتے ہیں تو کیا پھر بھی ایک عام آدمی الیکشن لڑسکے گا؟ پھر بےروز گاری ختم ہوجائے گی؟ کرپشن ختم ہو جائے گی؟ میرے خیال میں بالکل نہیں! جمہوریت خواہ کتنی ہی اچھی حالت میں کیوں نہ ہو نظام ہی ایسا ہے کہ بے شعور قوموں کے لئے اس میں کوئی گنجائش نہیں۔ جب تک ایک عام ووٹر میں اتنا شعور نہیں ہو گا کہ اس کے ووٹ کا غلط استعمال قوم کا کتنا نقصان کر سکتا ہے ، جمہوریت کا کوئی فائدہ نہیں۔ نظام غلط ہے ، میں مانتا ہوں مگر کیا قادری صاحب کے فارمولے سے یہ درست ہو جائیگا۔ بالکل نہیں۔ ذرا سوچئے! الیکشن کمیشن دوبارہ بن گیا، شفاف الیکشن ہو گئے، تب نظام بدل جائیگا؟ جی نہیں پھر بھی صرف وہی آدمی الیکشن لڑ سکے گا جو امیر ہو ۔ عام ووٹر کو پھر بھی ووٹ استعمال کرنے کی تمیز نہیں ہو گی۔ پھر بھی لوگ اس کو ووٹ دیں گے جن کے وہ مرید ہوں یا جو ان کو گھی کا ڈبہ دے۔ ہاں غربت ہے، دہشت گردی ہے، بے روزگاری ہے وغیرہ وغیرہ یہ ایک نفسیاتی اپیل ہے اور لوگ ایسے بیانات میں اپنے لئے کشش محسوس کرتے ہیں۔ اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والا ہر شخص ان ڈائلاگز کو استعمال کرتا ہے۔ ہمیں دلیل سے بات کرنی چاہیئے اور دیکھنا چاہیئے کہ متبادل حل ہے بھی سہی؟ اگر ہے تو کیا ہے؟ میرے دوست کہتے ہیں کہ موجودہ نظام میں غریب آدمی مجبور ہو جاتا ہے اور مجبور ہو کر وڈیروں اور سیاسی ٹھیکیداروں کو ووٹ دیتا ہے۔ غریبی اور بے غیر تی میں بہت بڑا فرق ہے۔ غربت ذلت نہیں ہوتی بلکہ اگر غریب آدمی بے غیرت ہو تو زندگی اس کے لئے ذلت بن جاتی ہے۔ویسے بھی قادری صاحب کے پاس ایسا کون سا فارمولا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مستقبل میں غریب آدمی بے و قوف نہیں بنے گا۔ بات یہ ہے کہ جمہوریت میں طاقت کا اصل سر چشمہ عوام ہوا کرتے ہیں۔ جب طاقت کا اصل سرچشمہ ہی سیاسی نا بالغ، ان پڑھ اور کم فہم لوگ ہوں تو طاقت بھی کھوٹے سکوں کے پاس ہوا کرتی ہے۔ ہمیں کرنا یہ چاہیئے کہ لوگوں میں موثر تعلیم کے ذریعےشعور اور عزتِ نفس پیدا کریں۔ جب لوگ سیاسی طور پر با شعور ہو گئے تو جمہوری نظام خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔
very rigth i am totally agree with you
جواب دیںحذف کریںاپنا قیمتی وقت نکال کر تشریف لانے کا شکریہ
حذف کریںآپ نے بالکل درست رُخ پیش کیا ہے ۔ شارٹ کٹ کی خواہش اتنی زیادہ ہے کہ اکثریت سکول کالج یونیورسٹی میں کتابیں پڑھنے کی بجائے گیس پیر پڑھتے ہیں یا پھر دوسروں کے لکھے نوٹس ۔ عملی زندگی میں اتے ہیں تو لاٹری ۔ معمے پُر کرنے میں لگ جاتے ہین کہ ایک دم امیر ہو جائین ۔ موبائل فون سروس والے اسی پر کما رہے ہے
جواب دیںحذف کریںجی ہاں افتخآر صاحب! متفاََ
حذف کریںجو قوم زمانے کی دوڑ میں جتنا پیچھے رہ جائے اسے آگے آنے کے لئے اتنی ہی محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
جواب دیںحذف کریںبہت خوب جناب