کچھ لالہ جی کے بارے میں:
لالہ جی پُورا دن اپنے گھر کے باہر بنے ہوئے اونچے سے تھڑے
پر دو خالی کرسیوں سمیت بیٹھے رہتے تھے ۔ گلی سے گزرنے والے ہر شخص پر ان کی نظر
ہوتی تھی۔ جب کوئی نیا آدمی گلی سے گزرتا اورسنسان گلی میں لالہ جی کے سامنے دو خالی
کرسیاں دیکھتا تو از راہِ ہمدردی لمحہ بھر کو ان کے ساتھ بیٹھنے کے لئے رک جاتا۔
بس یہیں سے اس کی اور لالہ جی کی دوستی کا آغاز ہوتا۔ لالہ جی کا تھڑا وہ محفل تھی
جہاں لوگ صرف آتے اپنی مرضی سے تھے۔ لالہ
جی کی باتیں ہی ایسی ہوتیں کہ ہر نیا آنے والا ان کا گرویدہ ہو جاتا۔ اِ دھر کی
بات اُدھر کرنےاور بات سے بات نکالنے کا فن تو کوئی ان سے سیکھے۔ ویسے بھی وہ نہایت پیار ، مروت اور مٹھاس بھری باتیں کرتے۔
دو سُنتے اور دو سُناتے، سناتے بھی ایسی کہ سننے والا عش عش کر اُٹھتا۔ کوئی مائی
کا لعل ایسا نہ تھا جو محض ایک مرتبہ ان کے تھڑے پر آیا ہو۔ لالہ جی باتیں اتنی پُر کشش ہوتی تھیں کہ اُسے دوبارہ آنا ہی
پڑتا تھا ۔ جب کوئی بار بار ان کے پاس آنا شروع کر دیتا تو لالہ جی کا سُننے کا
دورانیہ کم ہونے لگتا اور سنانے کا زیادہ۔ اور چلتے چلتے ایسا وقت بھی آتا کہ
سُننے والا صبح سے لے کر شام تک بُت بنا ان کی باتیں سُنتا رہتا اور وہ سناتے
رہتے۔ دھیرے دھیرےسننے والا بھی عجیب و غریب
کیفیات سے گزرنے لگتا۔ مثلاً پہلے پہل ان کی باتیں سُن کر منہ سے بے اختیار
نکلتا "واہ واہ" پھر
کچھ عرصہ
تک "کیا بات ہے!" کچھ دنوں بعد
سننے والے کی کیفیت " اچھا! ایسا بھی ہوا" والی ہو جاتی۔ پھر " نا
ممکن ! ایسا بھی ہوتا ہے" اور آخر میں "ہائیں؟کیاایسا ہو بھی سکتا
ہے؟"۔ بس یہ وہ مقام ہوتا کہ لالہ جی کا تھڑا پھر سے خالی ہو جاتا۔ وہ لوگ جو
اپنا سالم دن تک لالہ جی کے تھڑے پر قربان کیا کرتے تھے، پھر اس گلی میں آنے سے
بھی کترانے لگتے۔ اور لالہ جی دوبارہ دو
خالی کرسیوں کے ساتھ گلی سے گزرنے والے ہر
شخص پر نظر رکھے تنہا بیٹھے رہتے۔
لالہ جی اور میں:
میری لالہ جی سے براہِ راست تو واقفیت نہ تھی ۔ البتہ ان کا
بیٹا میرا دوست بنا توکبھی کبھار میں شام کو اس سے ملنے اسنکے گھر چلا تھا۔ اکثر
باہر تھڑے پر بیٹھے لالہ جی مل جاتے۔ یوں آہستہ آہستہ لالہ جی بھی میرے دوست بن
گئے۔ لالہ جی کی مزے دار باتین سُن کر اکثر میں ان پر رشک کیا کرتا کہ کچھ انسان
ایسے بھی ہوتے ہیں جو کُھل کر زندگی جیتے ہیں، جن پر بڑھاپے وغیرہ کا کوئی اثر
نہیں ہوتا۔ اکثر لالہ جی اپنی ہی سُنائی ہوئی باتوں پر اتنا لوٹ پوٹ ہوتے کہ میں
گھبرا جاتا کہ کہیں ان کے پیچ پُرزے ہی نہ کُھل جائیں۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور
آخر وہ وقت آ ہی گیا جب لالہ جی کے تھڑے کو خالی ہونا تھا۔ لالہ جی کی باتیں بدلنے
لگیں۔ ان کی زندگی کے تجربات سسپنس سے ہوتے ہوئے ایڈونچر میں داخل ہونے لگے اور ان
کی معلومات دلچسپ و عجیب سے عجیب و غریب ہونے لگیں۔
ایک دن شام ڈھلے میں ان کے پاس پہنچا تو رسمی علیک سلیک کے
بعد کہنے لگے "چل یار! آج تجھے ایک
بات سُناواں؟" میری یہ مجال کہاں کہ انکار کرتا اور ان کی جو میرے جواب کا
انتظار کرتے۔ کہنے لگے" ایک مرتبہ میں جنگل میں گیا۔ یہی اپنی چیچہ وطنی کی
بغل میں جو جنگل ہے وہاں"۔ میں سوچنے
لگا کہ آج تو سلطان راہی جنگل میں موجود ڈاکوؤں کی خوب درگت بنائے گا۔ کہنے لگے" پروگرام شکار کا تھااور وہ بھی
شیر کے شکار کا!" میں آج پہلی
مرتبہ سُن رہا تھا کہ ہمارے ساتھ والے
جنگل میں شیر بھی رہتے ہیں۔ خیر چھوڑئیے اس طرح کی دلچسپ معلومات ان سےمیں اکثر
سُنتا رہتا تھا۔ انہوں نے اپنی بات جاری
رکھی " پشٹل میرے پاس تھی۔ میں کافی دیر یہاں وہاں گھومتا رہا کہ کسی شیر سے آمنا سامنا ہو۔ آخر
کچھ دیر بعد شیر سے ٹاکرا ہو ہی گیا"۔ میں دل ہی دل میں اس پہیلی کا جواب
ڈھونڈنا شروع ہو گیا۔ ضرور شیر موصوف کے قدم چاٹنا شروع ہو گیا ہو گا۔ نہیں! ان کو
دیکھ کر درخت پر چڑھ گیا ہو گا۔ مگر شیر اور درخت؟ کیوں نہیں! جس دیس میں چک 46
والی سڑک پر ہنڈا والوں کی CD-70ایک سو پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگ سکتی ہے وہاں شیر کا درخت پر چڑھ جانا نا ممکنات میں سے تو نہیں۔
لالہ جی خاموش ہو کر میری طرف دیکھ رہے تھے۔ شاید اب انہیں
میرے لُقمے کی ضرورت تھی۔ "پھر کیا ہوا؟" میں نے لقمہ دیا۔ کہنے لگے
" پھر کیا! میں نے شیر کو تاڑ کر برشٹ کھول دیا"۔ " شیر مر گیا ہو
گا؟" سسپنس ختم کرنے کے لئے میں نے پوچھا۔ جواب دیا" مرا تو نہیں!
گولیاں اس کی پچھلی دونوں ٹانگوں پر لگیں
جو اُڑ گئیں اور شیر اپنی اگلی ٹانگوں پر ہوتا ہوا جنگل میں بھاگ نکلا"۔
یہ سُننا تھا کہ میں مارے شرم کے پانی پانی ہو گیا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ
کیا کروں۔ سوچا ایک کوشش کر کے دیکھتا ہوں شاید لالہ جی کو رحم آ جائے۔
پوچھا" لالہ جی! یہ بات ہے کب کی؟" بڑی ڈھٹائی سے جواب دیا " یہ
اُس زمانے کی بات ہے جب ہم جوان ہوا کرتے تھے"۔
یکا یک میرے ذہن مین ایک ترکیب آئی۔ اب میں لالہ جی سے
مُخاطب ہوا " لالہ جی وہ بات سُنی آپ نے؟"۔ کہنے لگے " کون
سی؟" ۔ میں بولا" ٹھہریں میں آپ کو سناتا ہوں" لالہ جی متوجہ ہو کر
میری بات سُن رہے تھے۔ "میرے ماموں کا بڑا لڑکا لاہور میں کام کرتا ہے۔ وہ اس
مرتبہ گاؤں آیا تھا"۔
لالہ جی: "اچھا!"۔ میں دوبارہ کہنے لگا"
پچھلے دنوں اس نے واپس جانا تھا تو وہ لاہور جانے والے پاور ٹیم پر بیٹھ گیا "۔
لالہ جی: "پھر؟"۔
میں: پاور ٹیم چیچہ وطنی سے چلا اور ساہیوال پہنچ گیا۔
ساہیوال پہنچ کر اس نے سواریاں اُٹھائیں تو ایک دھماکے والا شخص بھی اس میں سوار
ہو گیا"۔
لالہ جی اب کی بار دلچسپی سے بولے" اچھا! پھر کیا
بنا؟"۔ میں نے بات جاری رکھی" اب ہوا یوں کہ دھماکے والا بس کی سب سے
آخری سیٹ پر بیٹھا تھا اور میرے ماموں کا بیٹا سب سے اگلی سیٹ پر تھا"۔لالہ
جی نے تجسس سے پوچھا"پھر؟"۔
میں: "پھر کیا بس ساہیوال سے نکلی ہی تھی کہ دھماکے
والے آدمی نے دھماکہ کر دیا۔"
لالہ جی: "اوئے ہوئے ہوئے! پھر کیا بنا؟"۔
میں : " پھر ہوا یوں کہ بس کا پچھلا حصہ تو دھماکے سے
اُڑ گیا اور اگلا حصہ آدھے گھنٹے میں
لاہور پہنچ گیا"۔
لالہ جی جو شایدچند ہی لمحوں میں مجھ سے میرے ماموں کے بیٹے
کی بابت تعزیت کا پروگرام بنا رہے تھے ، یہ سُن کر ان کو جھٹکا سا لگا اور وہ اپنے
ہاتھ سے اپنی کھوپڑی کھُجانے لگے۔
کھسیانے ہو کر پوچھنے لگے: "یہ کب کی بات ہے؟"۔
میں نے بھی سینہ تان کر کہا" آپ نے کل کااخبار نہیں پڑھا؟" ۔ کہنے لگے
پہلے تو روز پڑھتا ہوں بس کل ہی رہ گیا۔ اس کے بعد میں نے بھی لالہ جی کے تھڑے کو
ہمیشہ سے خیر باد کہہ دیا مگر اس گلی سے گزرنا نہ چھوڑا۔ اب بھی جب کبھی اس گلی سے گُزر ہوتا ہے تو مُسکرا کر لالہ
جی کو سلام کر لیتا ہوں۔
آپ فقرہ بنانا جانتے ہیں ذرا جم کے لکھا کریں
جواب دیںحذف کریںریاض صاحب تشریف آوری اور حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ۔
حذف کریںجم کر لکھنے سے کیا مراد ہے۔ ذرا وضاحت کر دیتے تو اس نا چیز کو آسانی ہوتی؟
no meter what but your work is realy good please keep it up.....very nice
جواب دیںحذف کریںحمزہ بھائی حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ۔ آپ لوگوں کی شاباش ہی میرے جیسوں کے لئے تحیک بنتی ہے۔ تحریک بنتی ہے۔
جواب دیںحذف کریں