بات ہےگورنمنٹ ہائی سکول میانہ گوندل کے نویں کلاس کے رزلٹ
کی۔ 116 میں سے صرف تقریباً 20 لوگ پاس۔ذمہ دار کون؟
یکم ستمبر 2013 کونو منتخب ہیڈ ماسٹر ذالفقار رانجھا صاحب
نے اسی عنوان کو اپنی تقریر کا موضوع بنا لیا۔
شروعات تو رانجھا صاحب نے اپنے تعارف سے ہی کی۔ پھر آئے اصلی
عنوان کی طرف اور کیچڑ اچھالا منظور صاحب
پر۔ یہ کہتے ہوئے کہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام۔خیر بات تو نا مناسب ہی
تھی۔
دوسرے شکار کا رانجھا صاحب نے نام تو نہیں لیا لیکن بس نام
ہی نہیں لیا۔ پی ٹی صاحب (اللہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے) سے کلاس ٹیچر بنا
دیا پی ٹی صاحب کو۔
خیر ہیڈ ماسڑنے ٍٍٍٍ"مار نہیں پیار"، "کلاس
میں بیٹھ کے ٹیچرز کا مسیج کرنا"،"موبائل فون کے استعمال پر
پابندی"،"لڑائی کرنے والوں کے لیے سزائیں" اور سر فضل صاحب کے
سنہری دور کو بھی اپنی گفتگو کا حصہ بنایا۔
ہیڈ ماسٹر کا خطاب سکول کو بہتری کی طرف لانے والے ان کی
جذبے کی عکاسی کر رہا تھا۔ لیکن سابقہ ہیڈ ماسڑ
(منظور صاحب) کے دور میں سکول جو ایک نا خوشگوار واقعہ سے گزرا ہے۔ کیا وہ
اس کے ذمہ دار ہیں؟۔اگر ماضی پہ نگاہ ڈالی جائے تو کریڈٹ ساراٹیچرز کو جاتا ہے نہ
کہ ہیڈ ماسٹر کو۔
ہم دعا گو ہیں کہ اللہ اس سکول کو پہلے کی طرح ہی چمکتا
دمکتا رکھے اور آنے والی نسلیں پہلے کی طرح ہی فیض یاب ہوتی رہیں۔
مہمان لکھاری :طارق علی
نوا آیا اے سوہنیا۔
جواب دیںحذف کریںجی نواں ای اے۔
حذف کریںواہ۔ پھر کون ذمہ دار نکلا؟
جواب دیںحذف کریںاگر ماضی پہ نگاہ ڈالی جائے تو کریڈٹ ساراٹیچرز کو جاتا ہے نہ کہ ہیڈ ماسٹر کو۔
جواب دیںحذف کریںمطلب باز پرس ان اساتزہ کی ہونی چاہیئے تھی جو اب بھی سکول میں موجود ہیں۔ مگر ہیڈ ماشٹر صاحب نے سارا ملبہ سابقہ ہیڈماسٹر کے سر ڈال کر معاملہ کھو کھاتے کر دیا۔،
بھائی بلاگ پر آکر عزت افزائی کا بہت شکریہ!۔