جمعرات، 3 جنوری، 2013

میری ڈائری سے۔۔۔

وہ سارے لمحے ، وہ سارے پل ، اب قصہء ماضی ہیں۔
اب اس جگہ جب ٹھہر کر سوچتا ہوں........ماضی کو کریدتا ہوں،
محض اک جھلک ہی نظر آتی ہے۔...جیسے صرف ایک ہی دن گزرا ہو......وہ لمحے جب میں نے کوئی  بھی خواہش کی، خواہش کے لئے جتن کئے،......جب دوڑتا رہا کسی محور کے گرد..... ایسی محور جو خود گردش میں تھے۔  آج وہ محور بھی نہیں!اور میری تمام گردشیں ، ماضی کی اک جھلک کے سوا کچھ بھی نہیں۔
وہ لمحے جنہیں میں زندگی سمجھ کر جیتا رہا.........آج ان کو جب بھی دیکھتا ہوں، تووہ اک عکس سے زیادہ نظر نہیں آتے۔ 20 سال جو گزار دئے،7300 دن جو ڈھل چکے، لاکھوں گھنٹے جو بیت گئے، اربوں منٹ اور............ اور اب یاد بھی نہیں۔
صرف ایک جھلک یاد ہے کہ........ہاں میں کبھی بچہ تھا، پھر بڑا بھی ہو گیا۔ کب ؟... معلوم نہیں! ....پتہ ہی نہیں  چلا  اس دن کا ، جب ایک بچہ بڑا بن گیا.....اب زہر گُھلتا ہے ، دم گھٹتا ہے ، سر چکراتا ہے، جب سوچتا ہوں کہ کتنا وقت بیت گیا؟........اور حاصلِ جمع کچھ بھی نہیں!
کہاں گئے وہ پل جنہیں میں بڑے شوق سے گزارا کرتا تھا؟ .....کیا ان خوشیوں کی کوئی بھی قیمت نہیں جو مجھے بڑی عزیز تھیں؟ ........کیا وہ قہقہے محض وقت گزاری تھی؟
اگر نہیں تو پھر بتاؤ.....سمجھاؤ........کہ حاصلِ جمع کیا ہے؟
وہ قہقہے ، وہ مسکرہٹیں، وہ خواہشیں............وہ امیدیں اور وہ حسرتیں، وہیں رہ گئیں......جہاں کی تھیں۔
جاؤ! گھماؤ اس گردشِ کائنات کو!اگر گھما سکتے ہو! جب زمیں کی گردش پلٹ جائے.........اور کہکشائیں سُکڑنے لگیں،
تو شاید تم کبھی اس مقام پر پہنچ جاؤ، اس جگہ کو پالو، جہاں تم نے مسکراہٹیں بکھیری تھیں، قہقہے لگائے تھے.........مگر شایس ایسا ممکن نہیں۔
دل پر ایک بوجھ ہے،دماغ میں سوال ہے......کل جو حال تھا ، اب وہ ماضی ہے .......کیا زندگی حال سے ماضی بننے ہی کا نام ہے؟
گھڑی کی سوئیاں، شاید دنیا کی سب سے طاقتور چیز ہیں، چند لمحوں میں تمہارا حال ماضی بنا دیتی ہیں،
اور تم ، غلام ہو!  .......وقت کے! گھڑی کی ان سوئیوں کے!   .......  ہر کام کرنے سے پہلے حکم لیتے ہو ان سے!
تمہارے فیصلے ان سوئیوں کے اشاروں پر ہیں، ...........آہ! کتنے بے بس ہو تم!
ذرا سوچو ! ........اگر تم سے ساری گھڑیا ں چھین لی جائیں! سارے کیلنڈر غائب کر دئے جائیں! ماہ و سال اور تاریخ کی قید ختم ہو جائے!
دن بے نام ہو جائیں! .......تو کیا کرو گے تم؟ ...............تم بھی رُک جاؤ گے، جم جاؤ گے۔ کچھ نہ کر سکو گے۔ پھر تمہیں بھی پتہ چلے گا ، کہ جو کچھ تم نے کیا ،
خواب تھا،.......دھوکا تھا.......سراب تھا۔ تمہارے پاس بھی کوئی حاصلِ جمع  ہو گا نہ منزل کا نشان................زندگی جسے تم حسین کہتے ہو تمہارے لئے ایک صحرا بن جائے گی.....اور تم اس کی خاک چھانتے چھانتے فنا ہو جاؤ گے۔
تم سب غلام ہو ان گھڑیوں کے ........ماہ و سال کے ، دنوں کے ، ہفتے کے ، وقت کے......
آہ! یہ گھڑی کی ٹک ٹک ! ..... تمہیں سوچنے نہیں دیتی۔ تم اس کے غلام ہو ۔ تمہارا ذہن اس سے باہر ہی نہیں جا سکتا۔
گھڑی کی ٹک ٹک چلتی رہے گی، حال ماضی بنتا رہے گا، کیلنڈروں کے صفحے پلٹتے رہیں گے، اور تم بے خبر رہو گے........ اس ٹک ٹک کی غلامی کرتے رہو گے۔
تمہیں پتہ بھی نہ چلے گا .......کہ انجانے میں، جب تم اس "ٹک ٹک" کو پوج رہے تھے،........تم کہاں سے کہاں آ گئے ہو! ......خلا میں  تم نے کتنا سفر طے کر لیا ہے!اور کتنی گھڑیاں بِتا دیں!
اور کب جوانی سے بڑھاپے میں آ گئے ؟اور پھر کب...........؟
مگر افسوس ! کہ حاصلِ جمع پھر بھی صفر ہی ہو گا۔

6 تبصرے:

  1. بہت خوب بہت عمدہ لکھا آپ نے ماشاءاللہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  3. وقت، اچھا ہو یا برا ، گزر ہی جاتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جی ہاں! وقت تو گزر ہی جاتا ہے مگر گذرے ہوئے وقت سے سبق کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

      حذف کریں
  4. یہ تحریر میں نےخود کو سامنے رکھ کر پڑھی۔۔۔ اور ایسا محسوس ہوا کہ الفاظ میرے ہیں لیکن انہیں لکھا آپ نے ہے۔۔۔ بہت عمدہ لکھا ہے۔۔۔ جذبات اور احساسات کی اچھی ترجمانی کی ہے۔۔۔ اللہ آپ کو اسی طرح اچھا لکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. عمران بھائی پزیرائی کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔

      حذف کریں