بدھ، 23 اپریل، 2014

شرارتیں

شرارتوں کو عموماً  بچوں کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ ہر آدمی کے اندر ایک بچہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔ اس لئے ہر آدمی کبھی بھی شرارت کر سکتا ہے۔
ویسے شرارت کا مآخذ کیا ہوتا ہے؟ شرارت دماغ میں کہاں  سےپیدا ہوتی ہے؟ سب کچھ ایک دم ٹھیک روانی میں چل رہا ہوتا ہے۔ یکایک ذہن میں ایک خیال آتا ہے اور جی کو شرارت کرنے پر ابھارتا ہے، اور پھر۔۔۔بس! شرارت سرزد ہو جاتی ہے۔ ذہن کے کس حصے میں شرارت کے خیالات ابھرتے ہیں؟اگر شرارت آئی ہو تو ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیئے؟ اسے روکا کیسے جائے؟ اگر آپ کو ان سوالات میں سے کسی کے بارے میں کچھ پتہ ہو تو تبصرے والے خانے میں ضرور بتایئے گا۔
میرا خیال ہے کہ شرارت صرف انسانوں تک محدود نہیں۔ جانور بھی کبھی کبھی شرارت کرتے ہیں۔ بندر کا انسانوں کو دیکھ کر ان جیسی حرکات کرنا، ان کی نقلیں اتارنا، یہ بھی تو شرارت ہے۔ اور ابھی جب میں لائبریری کی طرف آ رہا تھا۔ درخت پر بیٹھی ہوئی ایک چڑیا میرا انتظار کر رہی تھی۔عین اس وقت جب میں درخت کے نیچے سے گزر رہا تھا، اس نے شرارت کر ڈالی۔وہ تو بھلا ہو کہ میں اس کی شرارت کی زد میں نہیں آیا، بال بال بچت ہو گئی۔ ورنہ شرمندگی ہوتی۔ اس کے علاوہ بھی کئی کوّں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اسی تاک میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کوئی نیچے سے گزرے اور وہ شرارت کر دیں۔
میرے دماغ کا وہ حصہ جہاں شرارتی خیالات جنم لیتے ہیں کبھی کبھی کافی سرگرم ہو جاتا ہے۔ اب دیکھیں ناں! میں نے یونہی اوپر والے پہرے میں شرارتاً بی چڑیا کا ذکر چھیڑ دیا۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ جب میں درخت کے نیچے سے گزر رہا تھا عین اسی وقت چڑیا کو ضرورت درپیش آئی ہو اور اس کا یہ فعل ارادتاً ہر گز نہ ہو۔ویسے یہ ایک قسم کا ذاتی عمل ہے اور اس قدر بے باکی سے اس پر بات کرنا شاید مناسب نہیں ہے۔چلیں قصہ جب شرارتوں کا چھڑ چکا تو آج میں آپ کو اپنی ایک شرارت سناتا ہوں۔
ہمارے ہاسٹل کے باہر ایک سیکیورٹی گارڈ بیٹھتا ہے۔ ہر وقت چاک و چوبند! اوپر سے آڈر ہے کہ جب بھی کوئی بندہ اندر داخل ہو گا تو کارڈ دکھا کر آئے گا۔ اب دو تین سال سے دو تین آدمیوں کی ہی بدل بدل کر ڈیوٹی لگتی ہے، ہاسٹل میں رہنے والے لوگ بھی تھوڑے سے ہی ہیں۔ ایسے میں ان کو ہمارے اور ہمیں ان کے چہرے اچھی طرح یاد ہو چکے تھے۔ وہ اکثر اندر آتے ہوئے ہمیں پہچان لیتے تھےکہ سٹوڈنٹ لوگ ہیں، ذرا بغل کی دکان تک کچھ خریداری کرنے گئے ہوں گے، اس لئے اکثر کارڈ چیک نہیں کرتے تھے۔ اب مجھے شبہ سا ہونے لگا کہ یہاں کی سیکیورٹی جتنی سخت نظر آتی ہے اتنی ہے نہیں۔میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ سیکیورٹی گارڈ سست ہو گیا ہے ۔کسی دن کوئی چپکے سے اس گیٹ سے گزر جائے گا اور اسے پتہ بھی نہیں چلے گا۔ کیوں نہ ایک تجربہ ہی کر کے دیکھ لیا جائے؟ لو جی!تبھی ایک دن دکان سے واپس آتے ہوئے  میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم داخل ہو جاؤ میں ذرا ٹھہر کر آتا ہوں۔میرے پاس ایک مفلر تھا جو میں نے اپنے منہ پر اس طرح لپیٹ لیا کہ چہرہ نظر نہ آئے۔ دھیرے دھیرے پیدل چلتا گیا ۔ گیٹ کے قریب جا کر اندر کی طرف دوڑ لگا دی۔ گارڈ کو جیسے ایک جھٹکا سا لگا جیسے کہیں یک دم آگ بھڑک اٹھی ہو۔ فوراً آواز دینے لگا۔ "اوئے اوئے! ادھر آؤ!"۔ میں نے مفلر اتار کر بے اختیار ہنسنا شروع کر دیا۔ میرا خیال غلط تھا۔ وہ گارڈ واقعی چاک و چوبند تھا۔خیر میں اس کے پاس گیا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا مگر مجھے برابر ہنسی آئے جا رہی تھی۔ وہ غصے سے ہانپتا ہوا کہہ رہا تھا" بہت تیز بنتے ہو! ایک دفعہ رپورٹ کروں گا ناں تمہاری ساری ہنسی نکل جائے گی، کیا نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"۔ خیر بے عزتی شروع ہوئی تو ہنسی خودبخود رک گئی۔ کچھ دیر بعد میں گارڈ سے معذرت کر کے واپس جا رہا تھا۔
شاید آپ کو یہ قصہ شرارت سے زیادہ بے وقوفی لگے۔ بہرحال! اسے کافی دیر گزر چکی ہے۔آج بھی جب اس بارے سوچتا ہون تو خود پر بہت ہنسی آتی ہے۔کہ کیسے مین اس طرح کی حرکت کر بیٹھا تھا؟ پتہ نہیں ایسی شرارت کہاں سے ذہن میں آئی اور کیوں آئی؟
ویسے ہلکی پھلکی شرارتیں اچھی ہوتی ہیں جب تک کسی دوسرے کو ان سے نقصان نہ پہنچے۔اور ہاں کبھی کبھی انسان اپنی ہی شرارتوں کی زد میں آجاتا ہے اور خود کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔
اب ٹھہرئیے جی! ایسے کہاں چلے؟ چلتے چلتے اپنا بھی کوئی قصہ یاد ہو تو شئیر کرتے جائیں۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں