ہفتہ، 30 جون، 2012

جب میں ریاض الجنہ میں بیٹھا تھا...

 

جب میں ریاض الجنہ میں بیٹھا تھا...

..وزیرِاعظم گیلانی جب یہاں شہزادہ نائف بن عبدالعزیز کے جنازے میں شرکت کر کےمدینہ منورہ پہنچا تو حضور کے روضہ مبارک سے باہر نکل رہا تھا، تو پاکستانیوں نے چور چور کے آوازے کسے۔ جب واپس گیا تو وزیرِاعظم نہ رہا۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ حکمران میرے حضور ﷺکی مسجد میں آتے ہیں اور اِن پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔اثر کیسے ہو  کہ یہ لوگ میرے حضورﷺ کو جانتے ہی نہیں...لوگو! پہچان تب ہو جب حضور ﷺکی حدیث پڑھیں۔ میرے سامنے حضور ﷺکی حدیث ہےبیان کرنے والے حضرت عبداللہ بن عباسؓ ہیں، حضور ﷺکی مسجد میں...میں یہ حدیث پڑھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ حضورﷺ کے چچا کا بیٹا کس قدر عظیم تھا کہ وہ اپنے باپ حضرت عباس ؓکے بارے میں بلا کم و کاست وہ سب کچھ بیان کر دیتے ہیں جو اُن کے سامنے ہوا تھا۔ وہ اپنے باپ کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ اللہ اللہ.....یہ ہے محدث صحابی کی امانت اور دیانت! قربان جاؤں اس علمی دیانت اور امانت پر...آئیے! اب حدیث ملاحظہ کیجئے!اقتدارملے ، اختیار مل جائے تو رشتہ داروں کو نوازنے والو، اقربا پروری کی بھینٹ چڑھ جانے والو....آؤ! میں تمہیں اپنے حضورﷺ کا اندازِحکمرانی بتاؤں۔
  حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں بدر کے میدان میں  میرے والد جناب عباس قیدی بن گئے۔ جب کعب نے قیدی بنایا، اللہ کے رسولﷺ نے پوچھا  اے ابو یسر....!تم نے اِن کو کیسے قیدی بنایا، کہنے لگے اِن کو قیدی بنایا تو میری مدد ایک ایسے آدمی نے کی جسے نہ تو میں نے پہلے دیکھا تھا نہ اب وہ موجود ہے۔ اس کا حلیہ اس اور اس طرح کا تھا، حضور ﷺنے فرمایا نظر کہاں آئے وہ تو فرشتہ تھا جس نے تمہاری مدد کی تھی۔
  ہاں ہاں یہی مدینہ شہر ہے ، مسجدِنبوی ہےاور حضورﷺ اپنے چچا جان حضرت عباسؓ کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں،پوچھتے ہیں، اے عباس!قارئین میں سوچ رہا ہوں، میرے حضور ﷺنے چچا جان نہیں کہا، اس لئے نہیں کہا کہ عدل میں جھول نہ آ جائے، صدقے قربان شاہِ مدینہ پر، اپنے چچا کا نام لے کر  مخاطب کرتے ہیں اور فرماتے ہیں اپنا بھی فدیہ ادا کرو، اپنے بھتیجے عقیل کا بھی فدیہ دو، نوفل کی ادائیگی بھی کرو اور عتبہ جو تمہارا حلیف ہے اس کے پیسے بھی ادا کرو، حضرت عبداللہ بن عباس بتلاتے ہیں کہ ان کے والد حضرت  عباسؓ نے انکار کر دیا، کہنے لگے میں تو بہت پہلے کا مسلمان ہو چکا ہوں مجھے تو قریش نے مکہ میں اپنے ساتھ زبردستی روک رکھا تھا۔ قارئین اب غور کریں میرے حضور ﷺکیا فرماتے ہیں، فرمایا: آپ نے جو بہت پہلے مسلمان ہونے کا دعوٰی کیا وہ اگر سچا ہے تو اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہےاس کا بدلہ بھی اللہ ہی دے گا، ہم تو ظاہری حالت کو دیکھ کر فیصلہ کرنے کے ذمہ دار ہیں، اس لئے فیصلہ یہ ہے کہ باقی کا نہ سہی تو کم از کم اپنی جان کا فدیہ تو ادا کرو۔ یہ تو ادا کرنا پڑے گا۔
اب  حضور ﷺنے جو فدیہ لیا وہ بیس اوقیا سونا تھا، حضرت عباسؓ نے یہ فدیہ دیا اور ساتھ درخواست کی کہ آپ مہرا فدیہ سونا الگ رکھ لیں، حضور ﷺنے صاف انکار کر دیا اور فرمایا یہ تو اللہ نے ہمیں آپ سے دلوایا ہے.....قارئین غور کریں میرے حضورﷺ نے یہاں "ہم" کا لفظ ارشاد کیا ہے یعنی جو مجاہدین ہیں، وہ انصار اور مہاجرین ہیں جو میرے ساتھ بدر کے میدان میں لڑے ہیں، ہم سب کو یہ مال اللہ نے دلوایا ہے۔
 قارئین اللہ کی قسم میرے پیارے حضور ﷺنے قدم قدم پر اقرباء پروری کو جڑ سے اُکھاڑ کر رکھ دیا، پھر کیوں نہ ہم کروڑوں اربوں درود پڑھیں اپنے حضورﷺ پر۔ اللہ جانتا ہے یہ الفاظ پڑھتے ہوئے اپنے حضور پر بے اختیار درود و سلام زبان پر آیا، آنکھوں میں آنسو تھےاور نظر روضہء رسول ﷺپر تھی اور بیٹھا ریاض الجنہ میں تھا، لوگو آگے سُنیے حضرت عبداللہ بن عباسؓ مزید بتلاتے ہیں : میرے والد کہنے لگے "اے اللہ کے رسول! میرے پاس تو کچھ بھی مال و دولت باقی نہیں رہا، میرے حضورنے جواب دیا جب تُم مکہ سے نکل رہے تھے(ہم سے لڑائی لڑنے کو نکل رہے تھے) اس وقت (اپنی اہلیہ میری چچی) فضل کی والدہ....!کو جو مال دیا تھا اور اسے کہا تھا کہ میں اگر جنگ میں مارا گیا تو اتنا فضل کا ہے، اتنے پیسے قثم کے ہیں اور اتنا مال عبداللہ کا ہے۔ یہ سُنتے ہی حضرت  عباس کہنے لگے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، میرے اور میری بیوی کے علاوہ کسی شخص کو بھی اس کا کچھ پتہ نہ تھا، پتہ تو خوب چل گیا ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔۔۔۔۔۔(یہ ساری خبر اللہ نے بتلائی ہے)
قارئینِ کرام میں روتا ہوا اب اُٹھ بیٹھا ہوں قاری محمد  یعقوب  شیخ صاحب بھی مدینہ منورہ میں ہیں، میری اہلیہ محترمہ بھی حرمِ نبوی کے صحن میں میری منتظر ہے.... ایک عرب مدنی کے ہاں کھانے کی دعوت ہے اس لئے نکل رہا ہوں ، مدینے کی گلیوں اور بازاروں میں محو ِ سفر ہوں اور متواتر دل یہ کہے جا رہا ہے مولا.....میرے پاکستان میں اب بہت اندھیرا مچ گیاکوئی ایک ایسا حکمران عطا فرما جو حضور کے نعلین مبارک کے نشانات پر چلنے والا ہو،تجھ سے ڈرنے والا ہو،چیف جسٹس نے اپنے بیٹے کو بھی طلب کر لیا، ایسی بہاریں اب حقیقی معنوں میں دکھا، آنکھیں ترس گئیں ٹھنڈک عطا فرما ۔ آمین یا رب العالمین!

           ہفت روزہ جرّار سے ماخوذ۔    مصنف: امیر حمزہ

3 تبصرے:

  1. میں 1985ء میں مناء میں موجود تھا کہ ایک ہموطن سے ملاقات پر حال احوال پوچھا ۔ اُن کے جواب پر میں سوچ میں پڑ گیا اور بات سمجھ میں جو آئی وہ اللہ کا فرمان ہے "میرے گھر میں جو کچھ کوئی لینے آتا ہے اُسے وہ مل جاتا ہے"۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. افتخار صاحب خوش آمدید! آپ کو اپنے بلاگ پر دیکھ کر خوشی ہوئی۔
    آپ نے ٹھیک کہا انسان جس چیز کی کوشش کرتا ہے اسے وہی ملتا ہے اور اللہ کے گھر کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔اللہ ہمارا وہاں جانا نصیب کرے۔

    جواب دیںحذف کریں