جمعرات، 16 اگست، 2012

شکوہ!

لو جی اقبال کی نظم شکوہ کا شعر حاضر ہے:۔
روزِ حشر میں بے خوف گھس جاؤں گا جنت میں
وہاں سے آئے تھے آدم وہ میرے باپ کا گھر ہے۔
اور جوابِ شکوہ میں اس کا جواب یوں دیا گیا:۔
ان اعمال کے ساتھ تو جنت کا طلب گار کیا ہے؟
وہاں سے نکالے گئے تھے آدم تو تیری اوقات کیا ہے؟
اجی حیران کیوں ہو رہے ہیں؟ کیوں آپ کو یہ شعر اقبال کا نہیں لگتا؟ مجھے بھی نہیں لگتا کیوں کہ بدقسمتی سے میں نے شکوہ اور جوابِ شکوہ پڑھ رکھی ہے۔ پہلے تو میں ذرا ٹھٹکا کہ ہو سکتا ہے کہ میری یادداشت کمزور پڑ گئی ہویا علامہ اقبال کا کوئی نادر ذخیرہ منظرِ عام پر آگیا ہو اور یہ شعر اقبال کا ہی ہو ۔مگر یہ اندازِتکلم اقبال کا تو نہیں !ٍنا ہی وہ شاہین کی خودی کا درس! یہ تو خوامخواہ جنت میں گھسنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ خیر جس نے مجھے ایس ایم ایس کیا تھا ان سے میں نے ڈرتے ڈرتے شکوہ کیا کہ بھائی مجھے اس شعر کی صحت میں شک ہے۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ گستاخی علامہ اقبال نے ہی کی ہے؟ جوابِ شکوہ ملاکہ نہیں جناب یہ کسی اور کا ہے مجھے دوسرے بھی کئی لوگوں نے نشاندہی کی ہے۔
تو حضرت ۔۔۔۔نے اتنی زحمت بھی نہیں کی کہ اگر ان کو علم ہو چکا ہے تو اس غلطی کی اصلاح کر دی جائے۔ یہ کوئی پہلا واقع نہیں ہے۔ ایک مرتبہ پہلے ایک دوست نے میسیج بھیجا کہ اگر فلاں نیک کام کرو گے تو اللہ نے کہا کہ میں اتنی حوریں دوں گا۔ میں نے پوچھا کہ اللہ نے کس جگہ یہ کہا؟ کس سورت یا آیت میں؟ اُلٹا میری درگت بنا ڈالی کہ یار اب میں حافظِ قرآن تھوڑی ہوں۔ مجھے کسی نے میسیج کیا میں نے فارورڈ کر دیا۔
اس کے علاوہ بھی کئی احادیث اور حضرت علی کے اقوال آتے رہتے ہیں جن کو عقل شک کی نگاہ سے دیکھتی ہےمگر اچانک ان ہستیوں کی عظمت کا خیال آتا ہے تو میں وسوسہ سمجھ کر فورا توبہ کر لیتا ہوں کہ اگر واقعی ان کے ہوئے تو؟کہیں سے محمد ﷺ کا فرمان نظر سے گزرا تھا جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کوئی بات بلا تصدیق آگے پھیلا دے۔ اس فتنے کا حُسن یہی ہے کہ کرنے والا سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ تو بہت ہی اعلٰی اور اچھا کام کر رہا ہے۔تبلیغ کر رہا ہے۔ ویسے بھی میرے جیسے آجکل تبلیغ ہی کرتے ہیں اور عمل کا ذمہ دوسروں کے سر۔ اب تو جو بھی کوئی میسیج حدیث والا آتا ہے میں فورا بغیر پڑھے اسے اُڑا دیتا ہوں۔جتنی حدیثوں کا پہلے سے پتہ ہے اگر انہی پر عمل ہو جائے تو بڑی بات ہے۔ کئی کاریگر تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ بڑی محنت سے کوئی بات گھڑی پھر کسی کتاب کا فرضی نام بھی گھڑ لیا اور صفحہ نمبر بھی لکھ دیا کہ اب تو پڑھنے والا مطمئن ہو جائے گا۔ پڑھنے والے بھی دیکھتے ہیں کہ حوالہ دیا ہوا ہے بس اتنا ہی کافی ہے۔ حوالہ صحیح ہو یا غلط اس سے انہیں کیا غرض ؟ اور وہ بھی اس تبلیغ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یوں جھٹ میسج در میسج پھیلتا رہتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ ساتھ یہ تلقین بھی کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک بھیجیں تا کہ آپ کو بھی ثواب ملے۔ خوب گر نکالا ہے ثواب کمانے کا ؟ بس میسیج پیکج کروا لو اور موبائل ثواب کی فیکٹری میں تبدیل۔ اور ژونگ اور یوفون والوں کے وارے نیارے! ان کی سروس چلتی رہتی ہے۔ آخر یہ بھی تو ثواب ہے نا کہ آپ کی
وجہ سے کسی کا پیٹ بھرا رہے۔
ویسے جب بھی میں اوپر والا شعر پڑتا ہوں تو بے اختیار ہنسی آ جاتی ہے۔ “بے خوف گھس جاؤں گا جنت میں” ہاہاہا! اور وہ بھی حشر کے دن؟ بچُو! پتہ چلے گا اس دن جب جُوت پھرے گا(اللہ بچائے)۔

3 تبصرے:

  1. حضور کیا پوچھتے ہیں ۔ شادی کے دعوت ناموں پر چھپا ہوتا ہے "رشتے آسمان پر بنتے ہیں اور زمین جُڑتے ہیں ۔ القرآن"۔
    میں کوئی 10 سال قبل جہاں سے کارڈ آیا تھا اُن سے پوچھا تو حیرت سے بولے "اچھا قرآن میں نہیں ہے؟" اُنہوں نے بتایا کہ کارڈ پر یہ پہلے سے چھپا تھا ۔ میں بیچنے والے کے پاس پہنچ گیا ۔ اس نے کہا "ہم نے فلاں سے خریدے ہیں"۔ میں وہاں جا پہچا اور عرض کی کہ اللہ کے کلام کو مذاق نہ بنایئے ۔ مگر ڈھاک کے وہی تین پاٹ ۔ ایسے کارڈ اب بھی چھپتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. بس جی کیا کریں! کچھ ایسا ہی حال ہے ایک دن ایک برقی پیغام موصول ہوا جس میں آیت کا حوالہ دیا گیا تھا سورۃ اور نمبر کے ساتھ جب قرآن مجید کھول کر دیکھا تو اس آیت کا وجود ہی نہیں تھا جس کا حوالہ دیا گیا تھا۔
    پہلے فراز اور غالب کی جو درگت بن چکی ہے اللہ اقبال کی خیر ہو

    جواب دیںحذف کریں
  3. فراز ' غالب ' اقبال تک تو ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔
    ہمیں کلام اللہ اور احادیث کی میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔

    اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے

    آمین

    جواب دیںحذف کریں