ہمارا معاشی نظام!
جب اپنے برِصغیر پر انگریز قابض تھے تو کہتے ہیں کہ اس دور میں مسلمانوں کی حالتِ زار بہت ہی قابلِ رحم تھی کیونکہ ان کی مذہبی اقدار خطرے میں تھیں،ان کو متعصب پالیسیوں کے ذریعے اور جائیدادوں سے محروم کر کے معاشی طور پر اپاہج کر دیا گیا تھا، نوکریوں کے دروازے بند تھے اور تعلیم میں بھی مسلمان ہندؤں سے بہت پیچھے رہ گئے تھے یہاں تک کہ مسلمانوں کی آنکھیں سید احمد خان،محمد اقبال اور محمد علی جناح جیسے اور بہت سے دوسرے لوگوں نے کھولیں۔ ویسے میں ذاتی طور پرآج پاکستان میں بسنے والوں کو اُن سے زیادہ قابلِ رحم سمجھتا ہوں کیونکہ اُن کے ساتھ یہ سب غیروں نے کیا تھا مگر اِن لوگوں کے ساتھ اپنے کر رہے ہیں۔خیر بات بہت لمبی ہو جائے گی
جب مسلمانوں کو اُس ملے جلے ماحول میں کام بنتا نظر نہ آیا اور انہوں نےاپنا جداگانہ تشخص برقرار رکھنے کے لئے ایک الگ وطن کی تگ و دو میں ہی عافیت جانی تاکہ اپنی دینی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو بسر کرسکیں۔ کہنے اور سننے کو تو یہ کام بہت آسان تھا مگر کرنے کو بہت کٹھن! اور اُس وقت تحریکِ پاکستان کے رہنما اس پُر خطر راستے سے مکمل طور پر آگاہ تھے اور وہ وقتا فوقتا لوگوں سے اِس کا ذکر بھی کرتے رہے۔ذرا سوچئے کتنا مشکل کام تھا ایک جغرافیائی خطہ حاصل کرنا، پھراس کے لئے ایک آئین بنانا جو کہ اسلامی اصولوں کی ترجمانی کرتا ہو، ایک معاشی نظام تشکیل دینا جس کی بنیاد اسلام کے فراہم کردہ ضابطہ اخلاق پر ہو اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ۔ اگر اُن لوگوں کی جگہ آج کے رہنما ہوتے تو یہ کبھی ممکن نہ ہوتا کیونکہ ہم میں تو ایک ڈیم بنانے کی ہمت نہیں باقی چیزیں تو بعد کی بات ہے۔جغرافیے اور آئین پر پھر کبھی بات کریں گے۔ اب اپنی توجہ مرکوز کر لیجئے معاشی نظام کی طرف۔
جی ہاں جہاں بانیا ن ِپاکستان کو نئے ملک کے آئین کے بارے میں واضح نقطہ نظر رکھتے تھے اسی طرح وہ ایک نئے معاشی نظام کی بھی اشد ضرورت محسوس کر رہے تھے۔ایک ایسا معاشی نظام جو کہ اسلام کی ہدایات کے مطابق ہو اور متوازن ہو اور مغربی طرز کا نہ ہو۔ قائدِاعظم نے اس کی وضا حت کرتے ہوئے کہا تھا:
"مغربی دنیا صنعتی قابلیت اور مشینوں کی دولت کے زبردست فوائد رکھنے کے باوجود انسانی تاریخ کے بد ترین باطنی بحران میں مبتلا ہےاگر ہم نے مغرب کا معاشی نظام اپنایا تو ہمیں اپنے عوام کے لئے خوشحالی حاصل کرنے میں مشکلات در پیش ہوں گی۔ ہمیں اپنی تقدیر اپنے علیحدہ اور منفرد انداز میں بنانی پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک ایسا معاشی نظام پیش کرنا ہو گا جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی اصولوں پر قائم ہو۔"
قائدِ اعظم کس قسم کے معاشی نظام کی تخلیق کی بات کر رہے تھے اور اُس سے کیا فوائد ہونا تھے؟ ہم کونسا معاشی نظام اختیار کئے ہوئے ہیں اور اس کے نقصانات کیا ہیں؟کیا یہ ہمارے ملی تقاضے پورےکرتا ہے؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں