جمعہ، 8 جون، 2012

گرین ہائوس ایفیکٹ!


 ماحولیاتی آلودگی اور پوری دنیا کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت (یعنی ’’گلوبل وارمنگ‘‘ یا ’’عالمی تپش‘‘) کا تذکرہ آج کل بہت عام ہوچکا ہے؛ اور اس حوالے سے اکثر آپ نے ’’گرین ہاؤس ایفیکٹ‘‘ کا نام سنا اور پڑھا ہوگا۔ شاید آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ گرین ہاؤس ایفیکٹ سے مراد، زمین کا بتدریج بڑھتا ہوا درجۂ حرارت ہے۔ لیکن آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ آخر زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کے اس عمل کو ’’گرین ہاؤس ایفیکٹ‘‘ کہتے ہی کیوں ہیں؟ اگر نہیں، تو آج کا سائنسی لفظ اور اس کی وضاحت آپ ہی کیلئے ہیں:
 سائنس کی زبان میں بات کریں تو گرین ہاؤس ایفیکٹ سے مراد کچھ یوں لی جاتی ہے: زمینی سطح اور نچلے کرۂ ہوائی کے گرمانے (یعنی اِن کا درجہ حرارت بڑھ جانے) کا عمل، جو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اضافے اور آبی بخارات کی موجودگی کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ آبی بخارات اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں قدرتی طور پر صلاحیت ہوتی ہے کہ یہ سورج سے آنے والی زیریں سرخ (اِنفرا رَیڈ) شعاعوں کو جذب کرلیتے ہیں، اور انہیں زمین کی طرف دوبارہ سے خارج کردیتے ہیں۔ اسی وجہ سے زمینی سطح اور فضا، دونوں کی گرمی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
 یاد رہے کہ یہ زیریں سرخ شعاعیں ہی ہیں جو گرمی کا باعث بنتی ہیں، اسی لئے انہیں ’’گرمی والی شعاعیں‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس اور آبی بخارات کے علاوہ، دوسری گیسیں بھی فضا میں شامل ہوکر گرمی میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں، جن میں میتھین اور کلورو فلورو کاربن گیسیں (CFCs) زیادہ مشہور ہیں۔ (سی ایف سی کا استعمال پہلے ریفریجریٹروں اور ڈیپ فریزروں وغیرہ میں ٹھنڈک کیلئے کیا جاتا تھا، لیکن جب سے اِن کے ماحول دشمن اثرات کے بارے میں پتا چلا ہے، تب سے دنیا بھر میں ان کے استعمال پر پابندی لگائی جاچکی ہے۔) وہ تمام گیسیں جو زمینی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنیں، انہیں اسی مناسبت سے ’’گرین ہاؤس گیسیں‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
 سچ تو یہ ہے کہ ہم فضا میں دوسری گیسوں کے اخراج پر تو پابندی لگاسکتے ہیں، لیکن کاربن ڈائی آکسائیڈ وہ گیس ہے جس کے اخراج پر مکمل پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ ارے بھئی! جب ہم سانس باہر نکالتے ہیں تو اس کے ساتھ ہم خود بھی ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کررہے ہوتے ہیں۔ دن کے وقت پودے اور درخت، ہوا کی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن خارج کرتے ہیں جبکہ رات میں وہ آکسیجن جذب کرکے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں (البتہ یہ اخراج، دن میں جذب کی گئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے)۔ اسی طرح جب پیٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل، کوئلہ، لکڑی اور قدرتی گیس وغیرہ (جنہیں مجموعی طور پر ’’فوسل فیول‘‘ یعنی ’’رکازی ایندھن‘‘ کہا جاتا ہے) جلائے جاتے ہیں، تو اُن کے استعمال سے بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بہت سی مقدار فضا میں شامل ہوجاتی ہے۔ اب چونکہ رکازی ایندھن کا استعمال دنیا بھر میں بہت زیادہ ہورہا ہے ۔۔ اور ایک طرح سے یہ ہماری بنیادی ضروریات میں بھی شامل ہے ۔۔ لہٰذا اسے کم از کم فوری طور پر بالکل ختم نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اسے کم سے کم کرنے کی کوششیں ضرور کی جارہی ہیں۔
 اُمید ہے کہ اب تک آپ بخوبی یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ گرین ہاؤس ایفیکٹ کیا ہے۔ لیکن اسے ’’گرین ہاؤس ایفیکٹ‘‘ کیوں کہتے ہیں؟
 یہ جاننے کیلئے ہمیں یورپ کا رُخ کرنا ہوگا جہاں کے اکثر ملکوں میں سال کے بیشتر حصے کے دوران ٹھنڈک رہتی ہے۔ اس ٹھنڈک والے ماحول میں گرم علاقوں کے پودے نہیں اُگائے جاسکتے جنہیں اپنی مناسب نشوونما کیلئے زیادہ حرارت درکار ہوتی ہے۔ لہٰذا، مصنوعی طور پر گرم علاقوں جیسا ماحول پیدا کرنے کی غرض سے وہاں خاص طرح کی جگہیں بنائی جاتی ہیں جنہیں سب طرف سے شفاف پلاسٹک والی چادروں یا شیشے کی مدد سے، کچھ یوں بند کردیا جاتا ہے کہ اُن کے اندر سورج کی روشنی پہنچتی رہے۔
 اِن جگہوں پر ہوا کے داخلے کا انتظام بھی خاص طرح کا ہوتا ہے، جس کی بدولت اِرد گرد کی ہوا اُن کے اندر صرف اتنی ہی مقدار میں پہنچ پاتی ہے جتنی کہ ضرورت ہو۔ اس سارے اہتمام کی وجہ سے اِن جگہوں کے اندر پہنچنے والی سورج کی روشنی، اپنے ساتھ گرمی بھی لاتی ہے لیکن وہ گرمی واپس باہر کے ماحول میں جانے نہیں پاتی؛ بلکہ ایک طرح سے اِن جگہوں کے اندر ’’بند‘‘ ہوکر انہیں آس پاس کے علاقے کی نسبت خاصا گرم کردیتی ہے۔ اِن جگہوں کا اندرونی ماحول ۔۔ جو نسبتاً گرم ہوتا ہے ۔۔ گرم علاقوں میں پیدا ہونے والے پودے اُگانے کیلئے مناسب رہتا ہے۔
 چونکہ یہ جگہیں خاص طور پر پودے (نباتات) اُگانے ہی کیلئے تیار کی جاتی ہیں، اور پودوں کے پتے سبز (گرین) ہوتے ہیں، اسی لئے ایسی کسی جگہ کو انگریزی میں ’’گرین ہاؤس‘‘ (green house) کہا جاتا ہے۔ آج کل بعض گرین ہاؤسز ایسے بھی بنائے جارہے ہیں جہاں پودوں کی نشوونما کو بہتر بنانے اور وہاں کے اندرونی درجہ حرارت کو خاصی حد تک اِرد گرد سے زیادہ رکھنے کیلئے خصوصی انتظامات کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اضافی مقدار بھی داخل کی جاتی رہتی ہے۔ ایسا بطورِ خاص اُن علاقوں میں موجود گرین ہاؤسز میں کیا جاتا ہے جو بہت سرد ہوں۔
 جب ’’گرین ہاؤس‘‘ کی یہ اصطلاح ہمارے بزرگوں کے سامنے پہنچی تو انہوں نے اس کے مفہوم پر توجہ دی اور اُردو میں اس کا ترجمہ ’’نبات خانہ‘‘ کیا؛ جو اصولاً بالکل درست ہے۔ اسی مناسبت سے ’’گرین ہاؤس ایفیکٹ‘‘ کو اُردو میں ’’نبات خانے کا اثر‘‘ یا ’’نبات خانہ اثر‘‘ کہنا زیادہ موزوں رہے گا۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ اُردو زبان میں گرین ہاؤس اور گرین ہاؤس ایفیکٹ کی متبادل معیاری اصطلاحات یہی (نبات خانہ اور نبات خانہ اثر) ہیں۔ البتہ اُستادِ گرامی سیّد قاسم محمود، رواں اُردو کی غرض سے گرین ہاؤس کو ’’سبز مکان‘‘ اور گرین ہاؤس ایفیکٹ کو ’’سبز مکانی اثر‘‘ لکھا کرتے تھے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں