اتوار، 26 فروری، 2017

پاس کر یا برداشت کر!

زندگی کی سڑک پر تقریبا ہر مسئلہ ایک سست رفتار ٹرک کی طرح ہوتا ہے۔۔۔اور اس کو خود پر اثر انداز ہونے سے بچانے کا طریقہ بھی یہی ہے۔۔۔۔
پاس کر یا برداشت کر!
محنت کریں نہیں تو صبر کریں۔ اپنے مسٰلے کی مشہوری یا صرف باتوں سے فرق نہیں پڑتا۔

بدھ، 15 فروری، 2017

بوڑھے بےوقوف شخص کی کہانی

یہ کہانی بہت پہلے چین کے ایک گاؤں کے رہنے والوں کے بارے میں ہے۔ یہ گاؤں چین کے ہزاروں فُٹ بلند پہاڑوں کے شمال میں واقع تھا۔ اور یہ پہاڑ کئی میل تک پھیلے ہوئے تھے۔  اس گاؤں میں ایک بوڑھا شخص رہتا تھا جسے سب لوگ بے وقوف کہہ کر بلایا کرتے تھے۔  بے وقوف بوڑھے کےگھر کے سامنے دو بہت بڑے بڑےپہاڑتھے ۔ پہاڑوں کے  پیچھے جنوب کی سمت ایک  دریابہتا  تھا جہاں سے وہ پانی لایا کرتا تھا۔  جب بھی اس شخص کو دریا کی طرف جانا ہوتا تو پہاڑوں کے کے گرد گھوم کر ایک بہت لمبا چکر کاٹ کر جانا پڑتا۔ اس طرح دریا  تک آنے جانے میں اس کو بہت لمبا فاصلہ طے کرنا پڑتا  اور دنوں کی مسافت طے کرنا پڑتی۔ بے وقوف اس لمبی مسافت سے بہت تنگ تھا۔ ایک دن اس نے اپنے سب گھر والوں بلایا اور ان کو جمع کر کے کہا:
"فرض کرو اگر ہم سب مل کر پہاڑوں کو زمین کے برابر کر دیں تو یوں ہم جنوب کی طرف دریا تک ایک راستہ  بنا سکتے ہیں"
  گھر والوں نےاس کی بات سنی تو راضی ہو گئے۔ صرف اس کی بیوی کو یہ بات پسند نہ آئی۔ اس کی بیوی نےناک بھوں  چڑھاتے ہوئے   کہا
"اے لو جی! تم میں تو اتنی طاقت بھی نہیں ہے کہ تم

پیر، 16 نومبر، 2015

سچی نفرت جھوٹی محبت سے بہتر ہے

لوگ آپ کی شخصیت میں موجود خامیوں کی وجہ سے آپ سے نفرت کریں یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی خوبیوں کوہ آپ کی شخصیت کا حصہ جان کر آپ سے محبت کریں جو حقیقتا آپ میں نہ ہوں۔  

بدھ، 7 مئی، 2014

اگلا قدم

علاقہ : آئی ایٹ مرکز، اسلام آباد

یہی کوئی دسمبر کی بات ہے۔ یوں تو سردی کا موسم شروع ہو چکا تھا مگر سردی برائے نام ہی تھی۔ فیض آباد والی اے ٹی ایم خراب ہونے کی وجہ سے میں پیدل آئی ایٹ مرکزپہنچ گیا۔ وہاں اے ٹی ایم میں ایک صاحب کیش نکلوا رہے تھے اور دوسرے جو شاید ان کے ساتھ ہی آئے تھے باہر ٹہل رہے تھے۔ قد ذرا مندرا(چھوٹا) تھا۔ بالوں پیچھے کی جانب کنگھی کئے ہوئے چمک رہے تھے، پینٹ زیب تن کئے ہوئے ، جسم پر تھوڑا بھرا بھرا سا گوشت تھا، دیکھنے میں ہی پتہ چل جاتا تھا کہ کھاتے پیتے آدمی ہیں۔  چند لمحوں میں ایک دبلا اور انتہائی عام آدمی مفلر میں منہ چھپائے ان کے پاس آیا اور مدد کی اپیل کی۔ وہ صاحب سوالیہ نظروں سے اپیل سنتے رہے۔ ان کی نظریں اپیل کی وضاحت چاہتی تھیں۔ کرنے والے نے بتایا کہ وہ کشمیر کا رہائشی ہے ، بیوی بیمار ہے، اس کے بعد اپنی کچھ معاشی مجبوریاں بتائیں جن کو بتاتے بتاتے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ رونا شروع ہو گیا۔صاحب کا دل شاید پسیج چکا تھا۔ انہوں نے دائیں جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا "وہ میری سفید رنگ کی پجارو کھڑی ہے، اس میں میرا ڈرائیور بھی بیٹھا ہوا ہے، وہاں چلے جاؤ ، میں آتا ہوں"۔ اس کے رخصت ہونے کے بعد خود کلامی کرتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے۔"اللہ! ہر بندہ ہی پریشان ہے! پتہ نہیں آج کل حالات کیسے ہو گئے ہیں۔ ہر بندہ پریشان ہے۔ جسے دیکھو مسائل میں گھرا ہوا ہے، کیوں جی کیا کہتے ہیں آپ؟  “ میری چند سیکنڈ کی محیط خاموشی کے بعد وہ دوبارہ مخاطب ہوئے "دیکھو جی! جب کوئی بندہ، خاص طور پر جب کوئی مرد کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے ناں!  تو وہ اپنا اندر مار کے ایسا کرتا ہے، نجانے کیسے کیسے حالات ایک مرد کو بھی دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیتے ہیں، کیوں جی؟"۔ ہمارا رسمی تعارف ہوا۔صاحب کوئی کاروبار کرتے تھے۔ کوئی چھوٹی سی کمپنی تھی جس میں سو دو سو خواتین کام کرتی تھیں ۔ تبادلہء خیال ہوا، پھر میں نے ان سے کہا کہ آپ اس آدمی کی مدد ضرور کریں۔ بے روزگار ہے، چند ہزار روپے کی مدد سے اس کے چند دن تو گزر جائیں گے مگر یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ آپ اس کو روزگار فراہم کر سکیں تو بہترین حل ہوگا۔ اسے کسی کام پر رکھ لیں یا اپنی جان پہچان والے کے پاس رکھوا لیں، آپ کاروباری آدمی ہیں آپ کے لئے یہ مشکل کام نہیں ہے۔ خیر ان کو یہ ترکیب پسند نہ آئی اور وہ جواباً اپنے کاروباری مسائل اور ورکرز کی معاشی حالت پر مجھے بریفنگ دینے لگے۔ اتنے میں ان کے ساتھی کیش نکلوا چکے تھے اور ہماری منزلیں جدا ہو گئیں۔
کسی سوالی کے مسائل کا مستقل  حل اگر ہماری تھوڑی سی کوششوں سے ہو سکتا ہو تو ہمیں ہمت کر کے ایک قدم اور آگے بڑھانا چاہیئے اور اس کے مسائل کے مستقل حل کا بندوبست کرنا چاہیئے۔ پائیدار ترقی صرف اسی صورت  میں ممکن ہے۔ ہر آدمی جو کام کر سکتا ہے اسے کام کرنا چاہیئے اور صاحب حیثیت لوگوں کو کام اور کام کرنے والوں کے درمیان حائل رکاوٹوں کا سد باب کرنے کی کوششیں کرنی چاہیئں۔ دگرگوں حالات پر کڑھتے رہنا مسائل کا حل نہیں ہوتا، بلکہ مسائل کا حل ایک قدم اور اٹھا کر اپنا حصہ، چاہے وہ کتنا ہی محدود کیوں نہ ہو، ڈال کر ہو سکتا ہے۔
   دوسرا ہمارے معاشرے میں پیشہ ور بھکاریوں کی بھرمار ہے۔ اور لوگ ان کی مدد کرتے رہتے ہیں۔  اچھے بھلے لوگ (صحت کے اعتبار سے) محض بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بر سرِ روزگار ہے مگر آمدن کم ہے جس کی وجہ سے اس کا گزارا مشکل سے ہوتا ہے تو ایسے لوگوں کی معاشی مدد تو سمجھ میں آتی ہے کہ کم از کم وہ ہاتھ پاؤں تو مار رہے ہیں۔ مگر جن لوگوں نے بھیک مانگنے کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے ان کا کیا؟ کوئی اگر محنت یا کام کرنے سے عاری ہے تو ایسے لوگوں کی مدد کیوں کر کی جائے؟ کس جواز کے تحت؟ خاص طور پر بچے جن کو بچپن سے ہی اس کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ جو پیسے ان کو بھیک میں دئے جاتے ہیں ان کے عوض ان کی چھوٹی موٹی خدمات حاصل کر کے بھیک کے بجائے مزدوری دے دی جائے۔ اس سے فائدہ تو ہو سکتا ہے۔ کم از کم جگہ صاف ہو سکتی ہے، راستے میں پڑے ہوئے  پتھر ہٹ سکتے ہیں۔ اگر اللہ نے آپ کو اتنی توفیق دی ہے کہ آپ کسی کی مدد کر سکتے ہیں تو ایک قدم اور آگے جائیں۔ ہاں اس سے آپ کےپانچ منٹ ضائع ضرور ہو سکتے ہیں ، مگر چند نہیں تو ایک دو لوگوں کی ایک دو مرتبہ بھیک مانگنے پر حوصلہ شکنی ضرور ہو گی اور محنت کر کے کمانے کی حوصلہ افزائی بھی۔

بدھ، 23 اپریل، 2014

شرارتیں

شرارتوں کو عموماً  بچوں کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ ہر آدمی کے اندر ایک بچہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔ اس لئے ہر آدمی کبھی بھی شرارت کر سکتا ہے۔
ویسے شرارت کا مآخذ کیا ہوتا ہے؟ شرارت دماغ میں کہاں  سےپیدا ہوتی ہے؟ سب کچھ ایک دم ٹھیک روانی میں چل رہا ہوتا ہے۔ یکایک ذہن میں ایک خیال آتا ہے اور جی کو شرارت کرنے پر ابھارتا ہے، اور پھر۔۔۔بس! شرارت سرزد ہو جاتی ہے۔ ذہن کے کس حصے میں شرارت کے خیالات ابھرتے ہیں؟اگر شرارت آئی ہو تو ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیئے؟ اسے روکا کیسے جائے؟ اگر آپ کو ان سوالات میں سے کسی کے بارے میں کچھ پتہ ہو تو تبصرے والے خانے میں ضرور بتایئے گا۔
میرا خیال ہے کہ شرارت صرف انسانوں تک محدود نہیں۔ جانور بھی کبھی کبھی شرارت کرتے ہیں۔ بندر کا انسانوں کو دیکھ کر ان جیسی حرکات کرنا، ان کی نقلیں اتارنا، یہ بھی تو شرارت ہے۔ اور ابھی جب میں لائبریری کی طرف آ رہا تھا۔ درخت پر بیٹھی ہوئی ایک چڑیا میرا انتظار کر رہی تھی۔عین اس وقت جب میں درخت کے نیچے سے گزر رہا تھا، اس نے شرارت کر ڈالی۔وہ تو بھلا ہو کہ میں اس کی شرارت کی زد میں نہیں آیا، بال بال بچت ہو گئی۔ ورنہ شرمندگی ہوتی۔ اس کے علاوہ بھی کئی کوّں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اسی تاک میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کوئی نیچے سے گزرے اور وہ شرارت کر دیں۔
میرے دماغ کا وہ حصہ جہاں شرارتی خیالات جنم لیتے ہیں کبھی کبھی کافی سرگرم ہو جاتا ہے۔ اب دیکھیں ناں! میں نے یونہی اوپر والے پہرے میں شرارتاً بی چڑیا کا ذکر چھیڑ دیا۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ جب میں درخت کے نیچے سے گزر رہا تھا عین اسی وقت چڑیا کو ضرورت درپیش آئی ہو اور اس کا یہ فعل ارادتاً ہر گز نہ ہو۔ویسے یہ ایک قسم کا ذاتی عمل ہے اور اس قدر بے باکی سے اس پر بات کرنا شاید مناسب نہیں ہے۔چلیں قصہ جب شرارتوں کا چھڑ چکا تو آج میں آپ کو اپنی ایک شرارت سناتا ہوں۔
ہمارے ہاسٹل کے باہر ایک سیکیورٹی گارڈ بیٹھتا ہے۔ ہر وقت چاک و چوبند! اوپر سے آڈر ہے کہ جب بھی کوئی بندہ اندر داخل ہو گا تو کارڈ دکھا کر آئے گا۔ اب دو تین سال سے دو تین آدمیوں کی ہی بدل بدل کر ڈیوٹی لگتی ہے، ہاسٹل میں رہنے والے لوگ بھی تھوڑے سے ہی ہیں۔ ایسے میں ان کو ہمارے اور ہمیں ان کے چہرے اچھی طرح یاد ہو چکے تھے۔ وہ اکثر اندر آتے ہوئے ہمیں پہچان لیتے تھےکہ سٹوڈنٹ لوگ ہیں، ذرا بغل کی دکان تک کچھ خریداری کرنے گئے ہوں گے، اس لئے اکثر کارڈ چیک نہیں کرتے تھے۔ اب مجھے شبہ سا ہونے لگا کہ یہاں کی سیکیورٹی جتنی سخت نظر آتی ہے اتنی ہے نہیں۔میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ سیکیورٹی گارڈ سست ہو گیا ہے ۔کسی دن کوئی چپکے سے اس گیٹ سے گزر جائے گا اور اسے پتہ بھی نہیں چلے گا۔ کیوں نہ ایک تجربہ ہی کر کے دیکھ لیا جائے؟ لو جی!تبھی ایک دن دکان سے واپس آتے ہوئے  میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم داخل ہو جاؤ میں ذرا ٹھہر کر آتا ہوں۔میرے پاس ایک مفلر تھا جو میں نے اپنے منہ پر اس طرح لپیٹ لیا کہ چہرہ نظر نہ آئے۔ دھیرے دھیرے پیدل چلتا گیا ۔ گیٹ کے قریب جا کر اندر کی طرف دوڑ لگا دی۔ گارڈ کو جیسے ایک جھٹکا سا لگا جیسے کہیں یک دم آگ بھڑک اٹھی ہو۔ فوراً آواز دینے لگا۔ "اوئے اوئے! ادھر آؤ!"۔ میں نے مفلر اتار کر بے اختیار ہنسنا شروع کر دیا۔ میرا خیال غلط تھا۔ وہ گارڈ واقعی چاک و چوبند تھا۔خیر میں اس کے پاس گیا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا مگر مجھے برابر ہنسی آئے جا رہی تھی۔ وہ غصے سے ہانپتا ہوا کہہ رہا تھا" بہت تیز بنتے ہو! ایک دفعہ رپورٹ کروں گا ناں تمہاری ساری ہنسی نکل جائے گی، کیا نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"۔ خیر بے عزتی شروع ہوئی تو ہنسی خودبخود رک گئی۔ کچھ دیر بعد میں گارڈ سے معذرت کر کے واپس جا رہا تھا۔
شاید آپ کو یہ قصہ شرارت سے زیادہ بے وقوفی لگے۔ بہرحال! اسے کافی دیر گزر چکی ہے۔آج بھی جب اس بارے سوچتا ہون تو خود پر بہت ہنسی آتی ہے۔کہ کیسے مین اس طرح کی حرکت کر بیٹھا تھا؟ پتہ نہیں ایسی شرارت کہاں سے ذہن میں آئی اور کیوں آئی؟
ویسے ہلکی پھلکی شرارتیں اچھی ہوتی ہیں جب تک کسی دوسرے کو ان سے نقصان نہ پہنچے۔اور ہاں کبھی کبھی انسان اپنی ہی شرارتوں کی زد میں آجاتا ہے اور خود کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔
اب ٹھہرئیے جی! ایسے کہاں چلے؟ چلتے چلتے اپنا بھی کوئی قصہ یاد ہو تو شئیر کرتے جائیں۔ 

جمعہ، 21 مارچ، 2014

عزت

پاسپورٹ آفس میں ٹوکن کے حصول کے لئے مردوں کی ایک لمبی لائن میں لگی ہوئی تھی۔ ذرا بائیں طرف  عورتوں کی لائن تھی۔  عورتیں اپنی لائن سے کوائف کا اندراج کرواتیں اور مردوں سے ڈِیل کرنے والے آپریٹر سے ٹوکن کا پرنٹ وصول کرتیں۔ اسی وجہ سے یہاں مردوں کی لائن میں کچھ زیادہ رش تھا۔ایک صاحب  جو ابھی ابھی اپنی بیٹی کے ساتھ پاسپورٹ آفس داخل ہوئے تھے، لائن میں لگنے کی بجائے سیدھا اپنی بیٹی کو مردوں کی لائن والے آپریٹر کے پاس لے آئے ۔ وہ  قطار کا اصول توڑکر اپنی بیٹی کو جلد ٹوکن دلوانے میں مصروف تھے کہ عورتوں کی لائن میں لگی ایک آنٹی نے بھانپ لیا۔ فوراً ان کی بیٹی کے پاس آئیں اور اسے اونچی آواز میں لائن میں لگنے کو کہا۔ ان آنٹی کی بدولت پاسپورٹ آفس میں سب کو صاحب کی چالاکی کا علم ہو چکا تھا۔ نا چاہتے ہوئے بھی بیٹی عورتوں کی لائن کے آخر میں جا کر کھڑی ہو گئی۔تھوڑی دیر بعد

ہفتہ، 8 مارچ، 2014

بے شرم


"بس سامنے والی پان شاپ کے پاس مجھے اتار دیجئے۔ سر آپ کا بہت بہت شکریہ، آپ نے مجھے لفٹ دی"

" شکریے کی کوئی بات نہیں یار! اس کار میں چار لوگ سفر کر سکتے ہیں، ویسے بھی اگر ہم انسان ایک دوسرے کے کام نہیں آئیں گے تو اورکون آئے گا؟"

پان شاپ آ چکی تھی۔  گاڑی کی بریک لگتے ہی  اس نے ایک مرتبہ بھر انور کا شکریہ ادا کیا اور اتر کر اپنی راہ چل دیا ۔ انور  نے گھر جانے کے لئے کار مسعود روڈ پر ڈال دی۔مسعود روڈ یہاں سے برکت کالونی جانے کے لئے استعمال ہوتا تھا اور راستے میں برکت مارکیٹ بھی آتی تھی۔ وہیں روڈ کے کنارے اسے دو خواتین ایک بچے سمیت پیدل چلتی نظر آئیں۔ ایک نے بچہ اٹھایا ہوا تھا اور دوسری ،جو عمر میں اس سے کافی بڑی معلوم ہوتی تھی ،نے ایک بھاری بھرکم بیگ۔ انور نے ان کے نزدیک جا کر کار کی رفتار آہستہ کر دی اور شیشہ نیچے سرکاتے ہوئے بولا " اگر آپ کو برکت کالونی جانا ہے تو میں آپ کو چھوڑ دوں گا، میں بھی وہیں جا رہا ہوں"۔ بچہ اُٹھائے ہوئےکم عمرخاتون بولی" تمہیں شرم نہیں آتی؟ لیڈیز سے ایسے بات کرتے ہیں؟ تمہارے گھر میں ......."۔

اتنا سن کر بے شرم انور نے کار کا شیشہ چڑھالیا اور سیدھا اپنے گھر کے سامنے جا کر ہی بریک لگائی۔