بدھ، 7 مئی، 2014

اگلا قدم

علاقہ : آئی ایٹ مرکز، اسلام آباد

یہی کوئی دسمبر کی بات ہے۔ یوں تو سردی کا موسم شروع ہو چکا تھا مگر سردی برائے نام ہی تھی۔ فیض آباد والی اے ٹی ایم خراب ہونے کی وجہ سے میں پیدل آئی ایٹ مرکزپہنچ گیا۔ وہاں اے ٹی ایم میں ایک صاحب کیش نکلوا رہے تھے اور دوسرے جو شاید ان کے ساتھ ہی آئے تھے باہر ٹہل رہے تھے۔ قد ذرا مندرا(چھوٹا) تھا۔ بالوں پیچھے کی جانب کنگھی کئے ہوئے چمک رہے تھے، پینٹ زیب تن کئے ہوئے ، جسم پر تھوڑا بھرا بھرا سا گوشت تھا، دیکھنے میں ہی پتہ چل جاتا تھا کہ کھاتے پیتے آدمی ہیں۔  چند لمحوں میں ایک دبلا اور انتہائی عام آدمی مفلر میں منہ چھپائے ان کے پاس آیا اور مدد کی اپیل کی۔ وہ صاحب سوالیہ نظروں سے اپیل سنتے رہے۔ ان کی نظریں اپیل کی وضاحت چاہتی تھیں۔ کرنے والے نے بتایا کہ وہ کشمیر کا رہائشی ہے ، بیوی بیمار ہے، اس کے بعد اپنی کچھ معاشی مجبوریاں بتائیں جن کو بتاتے بتاتے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ رونا شروع ہو گیا۔صاحب کا دل شاید پسیج چکا تھا۔ انہوں نے دائیں جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا "وہ میری سفید رنگ کی پجارو کھڑی ہے، اس میں میرا ڈرائیور بھی بیٹھا ہوا ہے، وہاں چلے جاؤ ، میں آتا ہوں"۔ اس کے رخصت ہونے کے بعد خود کلامی کرتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے۔"اللہ! ہر بندہ ہی پریشان ہے! پتہ نہیں آج کل حالات کیسے ہو گئے ہیں۔ ہر بندہ پریشان ہے۔ جسے دیکھو مسائل میں گھرا ہوا ہے، کیوں جی کیا کہتے ہیں آپ؟  “ میری چند سیکنڈ کی محیط خاموشی کے بعد وہ دوبارہ مخاطب ہوئے "دیکھو جی! جب کوئی بندہ، خاص طور پر جب کوئی مرد کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے ناں!  تو وہ اپنا اندر مار کے ایسا کرتا ہے، نجانے کیسے کیسے حالات ایک مرد کو بھی دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیتے ہیں، کیوں جی؟"۔ ہمارا رسمی تعارف ہوا۔صاحب کوئی کاروبار کرتے تھے۔ کوئی چھوٹی سی کمپنی تھی جس میں سو دو سو خواتین کام کرتی تھیں ۔ تبادلہء خیال ہوا، پھر میں نے ان سے کہا کہ آپ اس آدمی کی مدد ضرور کریں۔ بے روزگار ہے، چند ہزار روپے کی مدد سے اس کے چند دن تو گزر جائیں گے مگر یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ آپ اس کو روزگار فراہم کر سکیں تو بہترین حل ہوگا۔ اسے کسی کام پر رکھ لیں یا اپنی جان پہچان والے کے پاس رکھوا لیں، آپ کاروباری آدمی ہیں آپ کے لئے یہ مشکل کام نہیں ہے۔ خیر ان کو یہ ترکیب پسند نہ آئی اور وہ جواباً اپنے کاروباری مسائل اور ورکرز کی معاشی حالت پر مجھے بریفنگ دینے لگے۔ اتنے میں ان کے ساتھی کیش نکلوا چکے تھے اور ہماری منزلیں جدا ہو گئیں۔
کسی سوالی کے مسائل کا مستقل  حل اگر ہماری تھوڑی سی کوششوں سے ہو سکتا ہو تو ہمیں ہمت کر کے ایک قدم اور آگے بڑھانا چاہیئے اور اس کے مسائل کے مستقل حل کا بندوبست کرنا چاہیئے۔ پائیدار ترقی صرف اسی صورت  میں ممکن ہے۔ ہر آدمی جو کام کر سکتا ہے اسے کام کرنا چاہیئے اور صاحب حیثیت لوگوں کو کام اور کام کرنے والوں کے درمیان حائل رکاوٹوں کا سد باب کرنے کی کوششیں کرنی چاہیئں۔ دگرگوں حالات پر کڑھتے رہنا مسائل کا حل نہیں ہوتا، بلکہ مسائل کا حل ایک قدم اور اٹھا کر اپنا حصہ، چاہے وہ کتنا ہی محدود کیوں نہ ہو، ڈال کر ہو سکتا ہے۔
   دوسرا ہمارے معاشرے میں پیشہ ور بھکاریوں کی بھرمار ہے۔ اور لوگ ان کی مدد کرتے رہتے ہیں۔  اچھے بھلے لوگ (صحت کے اعتبار سے) محض بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بر سرِ روزگار ہے مگر آمدن کم ہے جس کی وجہ سے اس کا گزارا مشکل سے ہوتا ہے تو ایسے لوگوں کی معاشی مدد تو سمجھ میں آتی ہے کہ کم از کم وہ ہاتھ پاؤں تو مار رہے ہیں۔ مگر جن لوگوں نے بھیک مانگنے کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے ان کا کیا؟ کوئی اگر محنت یا کام کرنے سے عاری ہے تو ایسے لوگوں کی مدد کیوں کر کی جائے؟ کس جواز کے تحت؟ خاص طور پر بچے جن کو بچپن سے ہی اس کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ جو پیسے ان کو بھیک میں دئے جاتے ہیں ان کے عوض ان کی چھوٹی موٹی خدمات حاصل کر کے بھیک کے بجائے مزدوری دے دی جائے۔ اس سے فائدہ تو ہو سکتا ہے۔ کم از کم جگہ صاف ہو سکتی ہے، راستے میں پڑے ہوئے  پتھر ہٹ سکتے ہیں۔ اگر اللہ نے آپ کو اتنی توفیق دی ہے کہ آپ کسی کی مدد کر سکتے ہیں تو ایک قدم اور آگے جائیں۔ ہاں اس سے آپ کےپانچ منٹ ضائع ضرور ہو سکتے ہیں ، مگر چند نہیں تو ایک دو لوگوں کی ایک دو مرتبہ بھیک مانگنے پر حوصلہ شکنی ضرور ہو گی اور محنت کر کے کمانے کی حوصلہ افزائی بھی۔

1 تبصرہ:

  1. یہ سہل کام نہیں ایک گھمبیر مسئلہ ہے ۔ میں بھیک مانگنے والے کو حسبِ طلب یا حسبِ توفیق کچھ دے دیا کرتا تھا ۔ 1992ء سے میں نے بھیک مانگنے والوں کو اس سے نجات دلانے کی کوشش شروع کی یعنی اُنہیں محنت سے کمانے پر لگانے کی ۔ تجربہ نے بتایا کہ زیادہ تر بھیک مانگنے کو بہترین ذریعہ آمدن سمجھتے ہیں اور وہ محنت نہیں کرنا چاہتا ۔ ایسے بھی دیکھے جنہوں نے کشمیر دیکھا بھی نہں اور کشمیری بن کر مانگتے تھے ۔ خاص کر 2005ء کے زلزلہ کے بعد ۔ یہی حال مسجد یا مدرسہ کیلئے چندہ مانگنے والوں کا ہے جو کسی مسجد یا مدرسہ کے نمائیندے نہیں ہوتے ۔ بہت کم لوگ ایسے ملے جو واقعی مدد کے حقدار تھے

    جواب دیںحذف کریں