منگل، 7 جنوری، 2014

20 روپے کی مزدوری

مقام : واہ کینٹ
یہ تصویر یہاں سے لی گئی ہے۔اور اس کاتحریر کے مضمون سے کوئی تعلق نہیں
سخت گرمی کے بعد دوپہر ڈھل چکی تھی ۔ شام ہونے کو ہی تھی اورمیں چند دوستوں کے ہمراہ مارکیٹ  میں لان نما گراؤنڈ میں آئس کریم کے مزے لے رہا تھا۔ گرمیوں میں آئس کریم کھا نے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ اسی دوران ایک چھوٹا سا بچہ (عمر تقریباً دس سال ہو گی) ایک ہاتھ پیٹ پر رکھے اور دوسرا بھیک کے لئے پھیلائے سامنے آ کھڑا ہوا۔ میں جان چکا تھا بھکاری ہے، پھر بھی پوچھا کہ کیا بات ہے؟ کہنے لگا بھوک لگی ہے دس روپے دے دو۔ عمر کم تھی، چہرے پر معصومیت بھی نظر آ رہی تھی۔  سوال دس روپےکا تھا، میرے ہاتھ میں پچاس روپے کی آئس کریم تھی جو میں بغیر ضرورت محض مزے کے لئے کھا رہا تھا۔ جیب میں دس روپے بھی موجود تھے۔ ایسے میں اس بچے کو خالی ہاتھ دھتکارنا  نہیں چاہتا تھا۔ میں نے پھر پوچھا ! ٹھیک ہے تمہیں بھوک لگی ہے مگر میں تمہیں دس روپے مفت میں کیوں دے دوں؟مجھےاس بچے میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتے ہوئے دیکھ کر میرے دوست بھی میری طرف متوجہ ہو گئے۔  بچے نے رونی سی صورت بنا کر کہا "دس روپے دے دو کچھ کھا لوں گا"۔ میں نے پھر اپنی بات دہرائی" مفت میں کیوں دے دوں؟ تم کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟"۔
بچے نے مزید رونی صورت بنا لی۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ پیشہ ور بھکاری ہے مگر میں اسے دس روپے دینا چاہتا تھا۔ مگر کس جواز کے تحت؟؟؟ لان کے کنارے پر ایک بڑا کوڑا دان بھی رونی سی صورت بنائے پڑا ہوا تھا اور مختلف قسم کے کاغذ اس کے  باوجو د لان میں بکھرے پڑے تھے۔ میں نے اس بچے سے کہا کہ میں تمہیں دس نہیں بیس روپے دوں گا مگر شرط یہ ہے کہ
  لان میں بکھرے یہ کاغذ تم اٹھا کر اس کچرا دان میں پھینک دو۔ بیس روپے کا سن کر وہ خوش ہو گیا! جلدی جلدی تھوڑے بہت کاغذ اٹھائے اور کچرا دان میں پھینک دئے۔ مجھے جواز مل چکا تھا۔ میں نے اسے اس کی مزدوری دے دی۔ اور جاتے ہوئے کہا کہ یہ بھیک نہیں ہے ، تم ان پیسوں کے مستحق تھے آئیندہ بھی کوشش کرو کہ محنت کر کے پیسے مانگنا۔ پتہ نہیں میرے الفاظ اس کے کانوں میں پڑے یا محض ہوا  میں ہی تحلیل ہو گئے۔ وہ اچھلتا کُودتا بیس روپے کی خوشی میں آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد اپنی ہی عمر کے ایک اور لڑکے ، جو شاید اس کا بھائی تھا ، کے ساتھ نمودار ہوا۔ اس کو بھی بھیک چاہیئے تھی۔ میں نے اپنا مطالبہ دہرایا۔ وہ بچہ بھی چہرے پر معصومیت لئے ہوئے تھا مگر میری آفرشاید اسے پسند نہ آئی۔ میں اسے بھیک نہیں مزدوری دینا چاہتا تھا مگر وہ بھیک لینا چاہتا تھا۔  ہم دونوں ہی ضدی تھے اس لئے متفق نہ ہو سکے اور وہ دونوں بھائی کچھ دور بیٹھی ہوئی فیملی کی طرف جا نکلے۔ میری بے وقوفیوں، بھکاریوں کی اداکاریوں اور پاکستان کی حالتِ زار کا رونا رونے کے بعدچند منٹوں بعد ہماری محفل بھی اختتام کو پہنچی۔

12 تبصرے:

  1. اچھی سوچ ہے۔
    میں خود تو بھیک مانگتے بچوں کو بالکل نہیں دیتا لیکن آپکے اس مضمونسے یہ آئڈیا تو بن گیا کہ کیوں نا ان سے کوئی ایسا کام ہی کیوں نا کروایا جائے کہ جس کے سبب انکے دل میں مزدروی کی قدر جاگ جائے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. منصور بھائی پسندیدگی کا شکریہ!
      بالکلک ٹھیک کہا۔ کم از کم جو پیسے ان کو دئے جاتے ہین وہ حلال کر لینے چاہیئں

      حذف کریں
  2. kia yeah hukum hai ya....talab hai...."کوئی تبصرے نہیں"

    جواب دیںحذف کریں
  3. اچھا تو آپ واہ کینٹ سے ہیں۔ ہم نے بھی واہ کینٹ میں ملازمت کی اور پانچ سال تک وہاں رہے۔ لیکن بیس سال بعد جب دوبارہ واہ کینٹ گئے تو نقشہ ہی بدل چکا تھا۔ پہلے کہاں کھلا کھلا سا واہ کینٹ اور پھر کوڑے کرکٹ کا ڈھیر ہر طرف۔ صرف مال روڈ صاف تھی۔
    ہم نے بھی ایک دفعہ ایسے ہی سوالی کو بس پر سوار کرایا تھا جو اپنے شہر جانے کا کرایہ مانگ رہا تھا۔ لیکن کرایہ ہم نے کنڈکٹر کو دیا تھا اور اسے کہا تھا کہ اگر یہ راستے میں اترنے کا کہہ کر بقایا مانگے تو نہ دینا۔ چند دن بعد کالج جاتے ہوئے اتفاق سے اسی کنڈکٹر سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا وہ مسافر تو اگلے سٹاپ پر ہی اتر گیا تھا۔ سچ یہ ہے کہ بھیک مانگنا ایک کاروبار ہے اور اس کاروبار کے پیچھے بہت سے لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھکاری بھکاری ہی رہتے ہیں کبھی کام نہیں کرتے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. میرا تعلق اصل میں ضلع ساہیوال سے ہے۔ واہ کینٹ میں ایک دوست سے تعلق ہونے کی وجہ سے گیا تھا۔ آپ واہ کینٹ کی بات کرتے ہیں ہر جگہ کا نقشہ بدل رہا ہے۔ جہاں جہاں ہم انسان ہیں وہاں اب کوڑے کے ڈھیر ہیں۔
      جب میں ساتویں جماعت میں تھا تو اس طرح کے مسائل پر فوکس ہوا کرتا تھا اور گداگری وغیرہ پر ہمیں مضمون لکھائے جاتے تھے۔ اب بھی یہ مسائل جوں کے توں ہیں۔ مگر نئی نسل کا فوکس بدل گیا ہے۔ اب دیشت گردی وغیرہ پر مضمون لکھوائے جاتے ہیں۔ ان بڑے بڑے مسائل میں اس طرح کے مسائل دب کر ہی رہ گئے ہیں۔
      بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ۔

      حذف کریں
  4. جتنا خوبصورت پیغام اتنا ہی پیارا انداز تحریر۔ شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. از احمر

    بہت خوب

    کسے بھیک/مدد دینی ہے کسے نہیں، اس پرایک بحث کی ضرورت ہے-

    میں کم از کم بچوں کو بھیک دینے کے بالکل حق میں نہیں ہوں، کیوں کہ اسی تناسب سے بچوں کے اغوا کے کیسس بڑھتے پیں-

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ!
      جی ہاں! میرے خیال میں پیشہ ور بھکاریوں کو تو بالکل نہیں۔
      اور بچے بچپن سے بھیک مانگیں گے تو زندگی بھر معاشرے پر بوجھ ہی رہیں گے۔ ؒوگ چائلڈ لیبر پر بہت پریشان ہوتے ہین مگر چائلڈ بیگنگ (بچوں کا بھیک مانگنا) کی پروا نہیں کرتے۔

      حذف کریں
  6. نوجوان شاعر رؤ ف امیر کا فن اور شخصیت تحریر شوکت محمود اعوان
    (یہ مضمون بہت پرانا ہے ۔اس زمانے میں جب رؤف امیر کالج کی زندگی گذار رہا تھا۔ میں نے اس زمانے میں یہ مضمون لکھا۔ یہ مضمون کسی پایہ کا نہیں لیکن کچھ یادیں وابستہ تھیں تو میں نے اسے پیش کر دیا۔ رؤ ف امیر پر لکھنے کے لئے بہت اعلی تنقیدی ذہن ہو نا چاہیئے)۔
    رؤف امیر ٹیکسلا اور واہ کے نوجوان شعراء میں اپنا ایک خصوصی مقام رکھتا ہے۔ وہ آزاد شاعری میں تشبیہات، استعارات اور ماحولیات کا عجیب و غریب انداز سے استعمال کرنے پرکلی دسترس رکھتا ہے۔ گھر کے ماحول سے لے کر معاشرے کے وسیع منظر نظاروں کی اس قدر خوبصورت انداز میں عکاسی کرتا ہے۔ کہ قاری معاشرتی تبدیلیوں ، انسانی کمزوریوں، مشینی اثرات، معاشرتی حسن و قبح اور واقعات کے حقیقی اور اصلی پہلوؤں کا نظارہ کرنے لگتا ہے۔ اس کی گھمبیر ذات کی طرح اس کی شاعری بھی گھمبیر ہے۔ اس کی انفرادی نوعیت کی باتیں معاشرتی پہلوؤں کا مکمل ادراک رکھتی ہیں۔ جب وہ شعر کہنے لگتاہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمانے بھر کے اضطراب، دکھ اور درد اس کی آنکھوں میں سمٹ آئے ہوں اور پھر وہ شعروں کی شکل میں آنسوؤں کی صورت میں اسکی کالی چمکدار آنکھوں سے بہہ بہہ کر تابدار موتیوں کی شکل میں تبدیل ہو کر سامعیں کے دلوں کاہار بن جا رہے ہوں۔ اتنی کم عمری میں اتنے اعلیٰ پایہ کے شعر کہنے سے رؤف امیر کے اعلی ٹیلنٹ کی نشان دہی ہوتی ہے۔ ذوق و وجدان اور تیز جمالیاتی حس اس کے ذہن کی اضطرابی کیفیت میں اضافہ کر دیتی ہے اور رنگ برنگے شعر پوری جامعیت اور موسیقیت کے ساتھ ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ واہ اور ٹیکسلا کے گردونواح میں پھیلے ہوئے بے شمار نوجوان شعراء کے کلام پر رؤف امیر کے کلام کی چھاپ ہے اور یہ کسی حد تک حقیقت بھی ہے۔ کہ رؤف امیرنے بہت سے نوجوانوں کے شعری جذبوں کو اپنی بے پناہ قلبی طاقت کی لو سے روشنی بخشی ہے اور ان کے شعروں میں ان جذبوں کی عکاسی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ ان جذبوں کو پروان چڑھانے میں رؤف امیر نے کبھی بھی ادبی کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ٹیکسلا سے اب رؤف امیر کی شاعری کا دبستان واہ میں منتقل ہو گیا ہے۔ واہ چونکہ شعرو شاعری کی ترویج میں اہم کردار ادا کر رہاہے اور خوش قسمتی سے واہ چھاؤنی میں ادیبوں اور شاعروں کا ایک قافلہ سرگرم عمل ہے اور رؤف امیر اس جتھے میں نمایاں شخصیت کے طور پر ابھررہا ہے۔ اور دبستان رؤف کے اثرات اب واہ کی ادبی محفلوں میں بھی محسوس کئے جا رہے ہیں۔ رؤف امیر کی ذات اور شاعری میں ہم آہنگی اور ربط موجود ہے اور اسے بلند پایہ فکر کے مالک شاعر کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بعض اوقات اس کی خود سری اس میں آڑے آتی ہے تاہم اس کی شاعری میں جمود نہیں زور بیان کے ساتھ شستگی اور توازن بھی موجود ہے اور ولولہ انگیزی کا عنصر توبہت حد تک اس کی شاعری میں نمایاں ہے۔

    جواب دیںحذف کریں