اگر میں آپ سے پوچھوں کہ کبھی آپ کو پتنگ اُڑانے کا اتفاق
ہوا ہے تو بہت کم لوگ ہوں گے جن کا جواب 'نہیں' ہو گا۔اور اگر سوال یوں ہو کہ آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جو کسی
نہ کسی طرح بھی پتنگ بازی سے منسلک رہے ہیں تو تقریبا سبھی ہاتھ کھڑے ہوں گے۔ کچھ
پکّے پتنگ بازوں کے اور کچھ میرے جیسے کَنّی بازوں کے۔ خیر چھوڑئیے جی !ہم تو ہر
بسنت میں پتنگ اُڑاتے اور کنّیاں دیتے ہی رہ گئے اوراس شعبے میں بھی بازی لے گیا ہمارا ہمسائیہ “چین” جو کبھی چین سے بیٹھا
ہی نہیں۔ لوگوں کو دن میں بھی تارے نظر آتے ہیں مگر بیجنگ میں رہنے والے ہمارے
چینی بھائیوں کو رات میں بھی آسمان پر تارے نظر نہیں آتے۔ جی نہیں! اس کی وجہ یہ
نہیں ہے کہ ان کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہیں بلکہ
بیجنگ میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی
کے سبب پھیلنے والا 'سموگ' ہے(سموگ دھند اور دھوئیں کے مرکب کو کہتے ہیں)۔ اور یہ
سموگ فیکٹریوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کا مرہونِ منت ہے۔
بیجنگ کی فضائی آلودگی انتظامیہ کے لئے ایک پرانا دردِسر ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا
سکتا ہے کہ 2008 میں اولمپکس کے موقع پر فضا کو صاف کرنےکے لئے 170 کروڑ امریکی
ڈالر خرچ کئے گئے۔ اس کے علاوہ کھیلوں کے دوران تعمیراتی کام بند کرنے، شہر کی
ٹریفک کم کرنے، گیس اسٹیشن بند کرنےاور کچھ فیکٹریاں بند کرنے جیسی مختلف اسکیمیں
بھی متعارف کروائی گئیں تا کہ شہر کی فضا
کو بہتر بنایا جا سکے۔ بیجنگ کے شہریوں کے لئے فضا میں موجود آلودگی کے اعدادوشمار
جاننا بہت ضروری ہے ۔ اس اہمیت کے پیشِ نظر یونیورسٹی کے ایک طالب علم” ژیاوی وانگ” نے “فلوٹ” کے نام سے ایک منصوبہ تیار کیا
ہے۔ اس منصوبے کے تحت اُڑتے ہوئے پتنگوں
کی مدد سے فضا میں موجود آلودگی کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔ ان پتنگوں کو ہم ان کے
کام کی نسبت سےآلودگی پیما پتنگ کہہ سکتے ہیں۔ان پر آلودگی کی پیمائش کرنے والے
سینسرز کے ساتھ ساتھ ایل ای ڈی بتیاں ، مائکرو کنٹرولر اور جی پی ایس (گلوبل
پوزیشننگ سسٹم ) کی مدد سے جگہ بتانے والا آلہ بھی لگا ہو گا۔ اس منصوبے کے تخلیق کار کے مطابق ہر سینسر میں ایک مختلف قسم کا کیمیکل ہے ۔ یہ
کیمیکل صرف اسی گیس کے ساتھ ری ایکٹ کرنے (عمل انگیزی)کی صلاحیت رکھتا ہے جس کو
محسوس کرنے کے لئے یہ بنایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار
ماپنے کے لئے جو سینسر ہو گا اس میں موجود کیمیکل فضائی کاربن مونو آکسائیڈکے ساتھ
عمل انگیز ہو گا جس کے نتیجے میں سینسر کی کنڈکٹیویٹی(برقی مدافعت) تبدیل ہو جائے
گی ۔ جتنی زیادہ گیس کیمیکل کے ساتھ ملے گی سینسر میں سے اُتنا زیادہ کرنٹ گزرے
گا۔ یوں سینسراس قابل ہوں گے کہ وہ فضا
میں موجودآلودگی پیدا کرنے والے مادوں جیسے کاربن مونو آکسائیڈ، وولاٹائل نامیاتی
مادوں اور دوسرے ذرات کو محسوس کر سکیں۔ اور پھر فضا جتنی آلودہ ہوگی اسی لحاظ سے
مختلف رنگوں کی بتیاں جلیں گی۔ آلودگی کی سب سے کم مقدار کے لئے سبز، درمیانی
مقدار کے لئے پیلی ،زیادہ مقدار کے لئے سرخ اور انتہائی خطرناک مقدار کے لئے گلابی
رنگ کی بتّی کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اس سے پتنگ اُڑانے والے کو پتہ چل جائے گا کہ
فضا میں کتنی آلودگی ہے ۔البتہ کچھ سینسرز کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ پتنگ اُڑانے سے
پہلے اُن کو گرم کرنا پڑے گا اور اس مسئلے کا حل وہ ابھی تلاش کر رہے ہیں ۔اس کے
علاوہ ہوا کا درجہ حرارت اور اس میں موجود نمی بھی سینسرز کی حساسیت کے لئے ایک
سوالیہ نشان ہے۔
شیاؤ وئی وانگ اور ان کی ایک اور دوست نے یہ منصوبہ بنا کر ایک ویب سائٹ پر
پیش کیاتھا اور لوگوں کو اس کی اہمیت سے آگاہ کرتے ہوئے مالی مدد کی اپیل بھی کی تھی۔
لوگوں نے ان کے اس منصوبے کو سراہا اور دل کھول کر ان کی مدد کی۔اور ساتھ ہی ساتھ
شہر کے کئی زرخیزذہن اور قابل لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔بیجنگ میں15 سال سے
پتنگ بنانے والے ایک ماہر پتنگ ساز کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں جس کے ذمے پتنگ
کا نمونہ تیار کرنا ہے۔ اس منصوبے کو بروئے کار لانے کے لئے اگست میں کئی ورکشاپوں
کا انعقاد کیا گیا ہے۔ امید ہے اگست کے اختتام کے ساتھ لوگوں کی ایک کثیر تعداد کے
ساتھ یہ لوگ عوامی جگہوں اور پارکوں پر اپنے پتنگ فضا میں لہرا رہے ہوں گے۔
جہاں یہ منصوبہ عام شہریوں کو فضائی آلودگی کے بارے میں جاننے کے قابل بنائے
گا وہیں اس کی افادیت کے کئی پہلو اور بھی ہیں۔پتنگ اور مائکرو کنٹرولر کو ایک
دوسرے سے متعارف کرانے والا یہ منصوبہ اپنے لحاظ سے سائنس اور آرٹ کا ایک حسین
امتزاج ہے۔ دوسرا عوامی جگہوں پر اس کی تکمیل عام شہریوں کو ٹیکنالوجی کے قریب لے
آئے گی اور انہیں اپنے ماحول کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرے گی۔ یوں بڑھتی ہوئی
فضائی آلودگی کے سبب بیجنگ کے شہری اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو کر ماحول دوست
پالیسیاں اپنانے میں اپنے کردار کا تعین کر سکیں گے۔ساتھ ساتھ بچوں اور نوجوانوں
میں شعور پیدا کرے گا کہ وہ کس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کرتے
ہوئے روز مرّہ کی زندگی میں استفادہ کرتے ہیں۔ بہر حال ہو نہ ہو ایک مرتبہ بیجنگ
کے پتنگ باز اور ماحولیاتی سائنسدان کم از کم ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے تو ہوں
گے۔ ہم پاکستانی نوجوانوں کے لئے بھی یہ منصوبہ
ایک سبق کی حیثیت رکھتا ہے کہ ہم بسنت منانے یا نہ منانے کی بحث میں ہی الجھے رہیں
گے یا اپنی قومی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اپنی سطح پر کوئی ایسا کام کریں گے جس
سے عام لوگوں اور شہریوں کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی آ سکے اور ہمارا وطنِ عزیز
بحرانوں سے نبرد آزما ہو سکے۔
نوٹ : مندرجہ بالا مضمون گزشتہ سال گلوبل سائنس میں شائع ہو چکا ہے۔
ہماری پتنگیں اگر بچوں اور نوجوانوں کا گلا کاٹنا بند کردیں تو بہت کافی ہوگا۔
جواب دیںحذف کریںویسے مجھے پتنگ بازی سے سخت کوفت ہوتی ہے۔
جواد صاحب! بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںپتنگ بازی سے تو میرا بھی دور دور کا تعلق نہیں۔ جی ہاں! ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے۔