آزادی---صرف نعمت؟؟
"میں آزاد ہوں" یہ پڑھ کر آپ کے ذہن میں کیا خیال آتا ہے-ذرا ایک منٹ توقف کیجئے اور سوچئے کہ آزادی کیا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ آزادی ایک نعمت ہے۔ میں ان کی بات کی تردید نہیں کرتا مگر کیا آزادی صرف ایک نعمت ہے؟ یا ہم سے کوئی تقاضا بھی کرتی ہے؟
جی ہاں! آزادی ہم سے کچھ تقاضا بھی کرتی ہے۔ بلکہ آزادی کیا خدا کی دی گئی ہر نعمت ہر لحظہ ہم سے کچھ نہ کچھ تقاضا ضرور کرتی ہے۔ اولاد ایک بہت بڑی نعمت ہے مگر تقاضا کرتی ہے کہ اس کی پرورش صحیح خطوط پر کی جائے۔ اسی طرح مال بھی ایک نعمت ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کیا جائے بلکہ غریبوں، بے بسوں اور محتاجوں کا خیال بھی رکھا جائے۔ مال اور اولاد کے بارے میں اللہ تعالی قران میں فرماتے ہیں کہ تمہارا مال اور اولاد تمہارے لئے آزمائش ہیں۔ اور آزادی کی نعمت ہم سے تقاضا کرتی ہے احساسِ ذمہ داری کا۔
اس کی ایک موٹی سی مثال یہ ہے کہ بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے تو اس کی دیکھ بھال اس کی والدین کے سپرد ہوتی ہے۔والدین کی مرضی کے بغیر وہ من مانی نہیں کر سکتا۔اسی لئے بچہ اگر کوئی غلط عادت اپنا لے تو والدین کوہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ مگر جب یہی بچہ بڑا ہوتا ہے اور بعض معاملات میں خودمختار اور آزاد ہو جاتا ہے تو وہ اپنے نفع و نقصان اور کئے کرائے کا ذمہ دار خود ہوتا ہے، اسی لئے اسے بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانا پڑتے ہیں مبادا کوئی غلطی سرزد نہ ہو۔
اسی طرح جب کوئی قوم آزاد ہوتی ہے تو بالکل اُس بالغ بچے کی طرح اپنے نفع و نقصان کی ذمہ دار وہ خود ہی ہوتی ہے۔ اپنی پسپائی، شکست اور ناکامی کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھرانا اُسے زیب نہیں دیتا حتیٰ کہ اپنے دشمن کو بھی نہیں(بھئی دشمن ہوتے کس لئے ہیں)۔
یہ تو تھی ذمہ دار قوموں کی بات، اب اپنا عکس دیکھئے۔ ہم میں سے اکثر آزادی کو صرف نعمت سمجھ کر اس کے مزے لُوٹنے میں مصروف ہیں اور اپنی ذمہ داریوں سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ جب توازن بگڑتا ہے اور کوئی بحران آتا ہے تو بڑی دلیری سے قوم اپنے حکمرانوں اور حکمران ازلی دشمنوں کو موردِالزام ٹھہرانا اور کوسسنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ ہم میں سے ہر فرد ذمہ دار ہے۔ اور شاید ہمارے بحرانوں کی وجہ بھی یہی ہے کہ قیامِ پاکستان سے ہی ہم نے آزادی کی نعمت کا بھی وہی حشر کیا جوہم دوسری نعمتوں کا کرتے ہیں ۔اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتی۔ نہ اپنے نظام کو نظریہ کے مطابق ڈھالا، نہ ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ختم کیں، نہ مساوات اپنا سکے اور نہ اپنے ذہنوں کو آزاد کر سکے۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ شاید ہم اپنی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ ہار رہے ہیں۔ میں 1948 کی جنگ کی بات نہیں کر رہا نہ ہی 1965،1971 اور 1999 کی جنگ کی۔ میری مراد شدت پسندی کے خلاف جنگ بھی نہیں بلکہ میں اُس جنگ کی بات کر رہا ہوں جس کا اعلان قائد اعظم نے پاکستان بننے کے ٖفوراؑ بعد کر دیا تھا۔
"ہماری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ تو ابھی شروع ہوئی ہے"
جی ہان یہ تھی احساسِ ذمہ داری کی جنگ--------ایک عظیم نعمت حاصل کرنے کے بعد!!
جی ہاں! آزادی ہم سے کچھ تقاضا بھی کرتی ہے۔ بلکہ آزادی کیا خدا کی دی گئی ہر نعمت ہر لحظہ ہم سے کچھ نہ کچھ تقاضا ضرور کرتی ہے۔ اولاد ایک بہت بڑی نعمت ہے مگر تقاضا کرتی ہے کہ اس کی پرورش صحیح خطوط پر کی جائے۔ اسی طرح مال بھی ایک نعمت ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کیا جائے بلکہ غریبوں، بے بسوں اور محتاجوں کا خیال بھی رکھا جائے۔ مال اور اولاد کے بارے میں اللہ تعالی قران میں فرماتے ہیں کہ تمہارا مال اور اولاد تمہارے لئے آزمائش ہیں۔ اور آزادی کی نعمت ہم سے تقاضا کرتی ہے احساسِ ذمہ داری کا۔
اس کی ایک موٹی سی مثال یہ ہے کہ بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے تو اس کی دیکھ بھال اس کی والدین کے سپرد ہوتی ہے۔والدین کی مرضی کے بغیر وہ من مانی نہیں کر سکتا۔اسی لئے بچہ اگر کوئی غلط عادت اپنا لے تو والدین کوہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ مگر جب یہی بچہ بڑا ہوتا ہے اور بعض معاملات میں خودمختار اور آزاد ہو جاتا ہے تو وہ اپنے نفع و نقصان اور کئے کرائے کا ذمہ دار خود ہوتا ہے، اسی لئے اسے بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانا پڑتے ہیں مبادا کوئی غلطی سرزد نہ ہو۔
اسی طرح جب کوئی قوم آزاد ہوتی ہے تو بالکل اُس بالغ بچے کی طرح اپنے نفع و نقصان کی ذمہ دار وہ خود ہی ہوتی ہے۔ اپنی پسپائی، شکست اور ناکامی کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھرانا اُسے زیب نہیں دیتا حتیٰ کہ اپنے دشمن کو بھی نہیں(بھئی دشمن ہوتے کس لئے ہیں)۔
یہ تو تھی ذمہ دار قوموں کی بات، اب اپنا عکس دیکھئے۔ ہم میں سے اکثر آزادی کو صرف نعمت سمجھ کر اس کے مزے لُوٹنے میں مصروف ہیں اور اپنی ذمہ داریوں سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ جب توازن بگڑتا ہے اور کوئی بحران آتا ہے تو بڑی دلیری سے قوم اپنے حکمرانوں اور حکمران ازلی دشمنوں کو موردِالزام ٹھہرانا اور کوسسنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ ہم میں سے ہر فرد ذمہ دار ہے۔ اور شاید ہمارے بحرانوں کی وجہ بھی یہی ہے کہ قیامِ پاکستان سے ہی ہم نے آزادی کی نعمت کا بھی وہی حشر کیا جوہم دوسری نعمتوں کا کرتے ہیں ۔اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتی۔ نہ اپنے نظام کو نظریہ کے مطابق ڈھالا، نہ ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ختم کیں، نہ مساوات اپنا سکے اور نہ اپنے ذہنوں کو آزاد کر سکے۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ شاید ہم اپنی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ ہار رہے ہیں۔ میں 1948 کی جنگ کی بات نہیں کر رہا نہ ہی 1965،1971 اور 1999 کی جنگ کی۔ میری مراد شدت پسندی کے خلاف جنگ بھی نہیں بلکہ میں اُس جنگ کی بات کر رہا ہوں جس کا اعلان قائد اعظم نے پاکستان بننے کے ٖفوراؑ بعد کر دیا تھا۔
"ہماری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ تو ابھی شروع ہوئی ہے"
جی ہان یہ تھی احساسِ ذمہ داری کی جنگ--------ایک عظیم نعمت حاصل کرنے کے بعد!!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں