اتوار، 1 دسمبر، 2013

فرار



                    


چار سال بعدتعلیم مکمل کر کے ولایت سے آئے ہوئے اسے دو دن ہی گزرے تھے۔ اس کا باپ کھیتوں میں فصل دیکھنے گیا ہوا تھا اور وہ اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹا ہوا تھا۔ ماں پیار سے بار بار ہاتھ پھیر کر اس کا سر سہلا رہی تھی  اور اسےبتا رہی تھی کہ جب وہ ولایت میں  تھا تو اس کے باپ کو ٹی۔بی ہو گیا تھا۔ اور اس نے پورے آٹھ مہینے شہر والے ڈاکٹر کی دوائی کھائی تھی۔ اس کا ٹی ۔بی تو ٹھیک ہو گیا مگر صحت  اچھی طرح بحال نہ ہو سکی۔ جس کی وجہ سے وہ کھیتی باڑی کے قابل نہ رہا اور اس نے اپنی زمین ٹھیکے پر چڑھا دی۔
یہ سن کر اس پر چند لمحوں کے لئے سکتہ طاری ہو گیا۔
"ٹی بی؟مگر تو نے مجھے پہلے کیوں نی بتایا"
"پتر! میں نے سوچا کہ تو ولایت میں ہے، خوامخواہ پریشان ہو گا اور تیری پڑھائی پر اثر پڑے گا"۔
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔اس بار اس کے لہجے میں ذرا سختی تھی۔"مگر اماں تجھے ایک مرتبہ مجھے بتا تو دینا چاہیئے تھاناں!"
بیٹھتے ہی ماں کے چہرے پر اس کی نظر پڑی تو  اسے سراپا پیار نظر آیا۔  اپنے لہجے کی سختی پر شرمندگی ہوئی تو وہ اپنی ماں سے لپٹ گیا۔ چار سال سے  منتظر آنکھیں برس پڑیں اور کافی دیر تک برستی رہیں۔ جب آنسوؤں کی بارش تھمی تو ماں نے  شفقت سے اس کے گالوں پر اپنا ہاتھ پھیرا۔اسے اپنے نرم گالوں پر  کھردری ہڈیوں کی کھرچ ناگوار گزری تو اس نے ماں کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھا" ماں! تیرے ہاتھوں کو کیا ہوا ہے؟"۔
ماں اپنے میلے دوپٹے کے پلّو سے آنکھیں پونچھتی ہوئی اُٹھ گئی۔
" کچھ نہیں پُتّر! تیرا ابا آنے ولا ہے ، میں ہانڈی چڑھا کر آتی ہوں"۔

2 تبصرے: