جمعرات، 7 مارچ، 2013

کلّاں کی سیر (سفر نامہ)۔


ہم رات ہی کو یہاں پہنچے تھے۔
میں اور میرے دوست
میں اور میرے دوست
آگے چھٹیاں آ رہی تھیں، دوست کا گاؤں یونیورسٹی سے قریب ہی تھا۔ خیال آیا کہ  کیوں نہ دوستوں سے مل کر پروگرام بنایا جائے کہ گاؤں جائیں گے ، رات کا کھانا خود پکائیں گے،رات وہاں گزاریں گے۔ اور صبح سیر سپاٹا کر کے واپس آ جائیں گے۔ جب دوستوں سے  بات کی تو اچھا جواب ملا اور پروگرام طے ہو گیا کہ آدھےگھنٹے میں نکلنا ہے۔
جہاں میں زیرِتعلیم ہوں یہ جگہ اسلام آباد کی حدود میں ہی ہے مگر اکثر اسلام آباد یئے نہیں جانتے ۔ جب میں پہلی جگہ یہاں آیا تھا تو مجھے بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں اسلام آباد ہی میں کھڑا ہوں۔  خیر کچھ ضروری سامان

جلد بازی میں لیا اور نکل پڑے۔

گاؤں جہاں کا قصد تھا ، کا نام "کلاں" ہے۔ وہاں میرے ایک دوست  وسیم کا گھر ہے جو کئی سالوں سے بند پڑا ہے۔ بس کسی شادی بیاہ  یا عید کے موقع پر کبھی کبھارکھلتا ہے۔ رات وہاں گزارنے کا پروگرام تھا۔ جس دوست   کا گھر ہےوہ بھی ساتھ تھا  ۔اس کے گھر والے آجکل واہ کینٹ میں رہائش پذیر ہیں۔  شام  تقریباََ مغرب کا وقت تھا۔ چائے ، چینی ، مصالحہ ، پتی ، مونگ پھلی اور روٹیاں جو جو کچھ جلد بازی میں ذہن میں آیا خرید لیااور گاڑی کا انتظار کرنے لگے۔ وہاں گاڑیاں کم ہی جاتی ہیں ۔ پورے دن میں بس تین چار ہی! کافی دیر بعد ایک گاڑی آئی۔ بھری معلوم ہوتی تھی۔ دل کھٹکا کہ پورے نہ آسکیں گے ۔ ہم کل آٹھ لوگ تھے۔ چار کو بیٹھنے کی جگہ مل گئی باقی چار لٹک گئے۔  اس علاقے میں گاڑیوں کے پیچھے لٹکنا  خطرناک ضرور ہے، مگر یہ لوگوں کے روزمرہ معمول کا حصہ ہے۔شہر سے دور ہونے کے باعث یہاں گاڑیوں کی آمدورفت بہت کم ہوتی ہے اس لئے یہان لٹکنا مجبوری ہے اور ضروری بھی۔ میں تو اندر  سوار ہو گیا۔ کچھ باقی دوست  جن کو اندر جگہ نہ ملی وہ لٹک گئے۔
پہاڑی لوگوں کے بارے میں اکثر سُنا تھا کہ یہ لوگ   اچھے نہیں ہوتے ، لٹیرے اور ڈاکو ہوتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹی انتظامیہ نے بھی ہمیں متبنّہ کیا تھا کہ آپ اس  طرف  کا کبھی قصد نہ کریں۔ مگر جب یہاں کے لوگوں سے ملاقات ہوئی تو انتظامیہ کی باتیں محض خام خیالی نظر آئیں۔یہاں کے لوگ نہایت ملنسار ، مخلص، ہمدرد اورخیال رکھنے والے  ہیں۔ جب ہمارے ہمراہیوں کو پتہ چلا کہ ہم  بطور مہمان یہاں تشریف  لائے ہیں اور گھومنے پھرنے کا ارادہ ہے تو ہماری خوب آؤ بھگت  شروع ہو گئی اور ہمیں مہمانوں کا پورا پروٹوکول  دیا گیا۔ تقریباِِ ایک گھنٹے کے اس سفر میں ہمیں اجنبیت کا بالکل احساس نہ ہوا۔  سائنس زدہ معاشروں میں جہاں انسان اپنے اوپر ایک خود ساختہ  انا کا خول چڑھا لیتے ہیں ایسے لوگ عام طور پر نظر نہیں آتے ۔ اور انسانیت کی عظمت تو اسی میں ہے کہ وہ ایک دوسرے کا دکھ درد بھی محسوس کرتے ہیں ورنہ اپنا درد تو حیوان بھی محسوس کر تے ہیں۔ اس وقت فلائنگ  کوچ کی سیٹ پر بیٹھے ہوئے میں نے انسانیت کا وہ روپ دیکھا  جو    چراغ لے کر بھی ڈھونڈو تو شاید ہی پورے اسلام آباد میں ملے۔ خوبصورت، بے لوث، مخلص، ہمدرد اور پیاری انسانیت!
جب گاڑی نے ہماری منزل پر آ کر بریک لگائی تو سب نے نیک خواہشات کے ساتھ ہمیں الوداع کیا، ہم گاڑی سے اتر  رہے تھے کہ گاڑی کے کلنڈر نے لسّی سے بھری ہوئی تین بوتلیں  ہمارے  سپرد کر دیں اور "چلو جی" کی آواز کے ساتھ ہی  گاڑی  کو چلنے کا حکم جاری کر دیا۔ میں اور میرے دوست  اس مہمان نوازی پر ششدر رہ گئے۔
یہاں سے ہمارے دلچسپ  ایڈونچر کا آغاز ہوتا ہے۔ ہم  چلتے چلتے دوست کے گھر پہنچے۔ سب سے پہلے گھر کا تالا کھولا اور بجلی چالُو کی۔ اوراس کے بعد پیٹ پوجا  کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے  ۔ یہاں چونکہ سب کچھ خود ہی کرنا تھا اس لئے دستیاب وسائل  کے  بہترین استعمال اور اجتماعی ذمہ داری کو نظم و ضبط  سے نبھانے کے لئے ہم نے موقع پر ہی  اپنے میں سے ایک کو  اپنا لیڈر یا "امیر" چن لیا۔  امیرِ محترم کے  حکم کے مطابق دو ٹیمیں بنائی گئیں۔ ایک ٹیم کے ذمہ بستر تیار کرنا اور دوسری کے ذمہ برتن دھونا اور کھانا پکانا تھا۔ میں برتن دھونے والی ٹیم میں شامل تھا۔ یہاں کا پانی بہت ٹھنڈا تھا۔ اور دوسرا پانی کی ایک عجیب خاصیت تھی جو میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ پانی   جیسے ہی نل سے نکلتا تو  یوں لگتا  کہ اس میں سفید رنگ کی جھاگ ملی ہوئی ہے۔ کچھ دیر برتن میں پڑے رہنے کے بعد خود ہی سفید جھاگ غائب ہو جاتی اورپانی اپنی اصلیت پر آ جاتا اور بے رنگ ہو جاتا۔ رات کے کھانے پر ہم نے  اس معمے پر کافی سوچ بچار کی اور آخر نتیجہ یہ نکالا کہ سفید جھاگ  یقیناََ  کچھ نمکیات کی وجہ سے ہوگی جو حالتِ سکون میں آنے کے بعد خود ہی پانے میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔
جو کہ ٹوٹے ہوئے کوزے کا نچلا حصہ تھا
چولہا
برتن دھونے کے بعد ہم نے کھانا پکانے کی طرف اپنی توجہ مبذول کی۔سخت سردی تھی اور اندھیرا بھی۔ ہماری خوش قسمتی کہ جنگل سے قریب ہونے کی وجہ سے خشک  لکڑیاں ڈھونڈنے میں زیادہ دقّت نہ ہوئی۔ لکڑیاں اکٹھی کرنے کے بعد چولہا نکال کر صاف کیا گیا۔  چولہا ہمیں اس گھر میں سے ہی مل گیا۔چولہا کیا تھا ، دیکھنے میں کوزے کے نچلے حصے کی طرح لگتا تھا۔ شاید اس علاقے میں چولہے ایسے ہی ہوتے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ضرورت کے تحت  کسی پرانے کوزے کو چولہے کے طور پر استعمال کرنے کے لئے رکھ لیا گیا ہو۔ خیر جو بھی ہو، ہماری ضرورت پوری کرنے کو  کافی تھا۔ ماچس ہم خرید کر لائے تھے۔ مزید دیر کئے بغیر آگ جلائی۔ روٹیاں ہم نے آنے سے پہلے خرید لیں تھیں اور راستے سےانڈے  بھی لئے تھے۔ ہم کُل آٹھ دوست تھے  اور انڈے ایک درجن! چھ انڈے الگ کئے۔ سب کو ایک ہی برتن میں انڈیل کر پھینٹنا شروع کردیا کہ ہاتھ کی صفائی دکھا کر ان چھ کے ہی آٹھ آملیٹ تیار کر لیں گے تا کہ باقی چھ صبح ناشتے کے لئے بچ جائیں۔ مگر یہ کیا جیسے ہی انڈے  میں نمک مرچ ڈالنے کی باری آئی تو انکشاف ہوا کہ نمک مرچ تو  راستے سے خریدنا ہی بھول گئے ہیں۔ تو اب کیا پھیکے آملیٹ کھا کر گزارہ کیا جائے۔ "میس کے آملیٹ  بھی تو قریب قریب  پھیکے ہی ہوتے ہیں" اپنے دوستوں کی ہمت بندھانے کے لئے میں نے کہا۔ سامان کوبار بار ٹٹول کر دیکھا۔ نمک مرچ تو نہ نکلی مگر کہیں سے چاٹ مصالحہ بر آمد ہو گیا۔ اتنے میں بستر تیار کرنے والی ٹیم اپنا کام ختم کر کے چولہے کے ارد گرد آ کر  بیٹھ چکے تھی اور بڑی بے صبری سے "ڈنر"   کا انتظار ہو رہا تھا۔  امیرِ محترم  نے فیصلہ کیا کہ پہلے ایک آملیٹ چاٹ مصالحہ ڈال کر بنایا جائے اور اسے چیک کیا جائے۔ اگر تو تجربہ کامیاب رہا تو ٹھیک ورنہ کچھ اور سوچیں گے۔ خیر پہلاآملیٹ تیار ہوا اور جب آٹھ جوان اسے چیک کرنے بیٹھے تو سارا چیکنگ کی نذر ہو گیا۔ آٹھ منہ آٹھ ہی باتیں! کسی نے کہا "چلے گا" کسی نے کہا کہ اس سے تو کچا انڈہ پی جانا بہتر ہے۔ جن کے پاؤں مخمل پر چلنے  سے چھلتے اور دانت انگور کھانے سے ہلتے تھےانہوں نے فوراََ تھوک دیا۔ میں نے مشورہ دیا کہ ہماری پاس چینی وافر مقدار میں موجود ہے کیوں نہ میٹھا آملیٹ بنایا جائے؟ میٹھے انڈے کا نام سُننا تھا کہ سب کے ماتھے پر شکنیں پڑ گئیں۔ "میٹھا انڈا تو کبھی نہیں سُنا؟" اب میں ان  بر گر اور پیپسی خوروں کو کیسے سمجھاتا کہ میٹھا آملیٹ ہونے کے لئے سننا کوئی ضروری تھوڑی ہے؟ عام آملیٹ میں چینی ڈال دو  لو!ہو گیا میٹھا آملیٹ تیار۔ خیر اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے  میں نے میٹھے آملیٹ کے خدوخال  اور پکانے کی ترکیب پر روشنی ڈالی ، تخلیق ، ضرورت کی ماں ، وسائل کی کم یابی اور  وقت کی ضرورت کو موضوع ِگفتگو بناتے ہوئے  کوئی دو تین منٹ دلائل دئے تب کہیں جا کر ایک دو کا  ارادہ بدلنے میں کامیاب ہو سکا۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ   صرف دو انڈے میٹھے بنائے جائیں گے ۔ سو اللہ اللہ کر کے  آملیٹ تیار ہوئے ، روٹیوں کو گرم کیا گیااور دستر خوان سج گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کھانے کے دوران  میٹھے انڈے کا ذائقہ چکھتے ہی سب  اس پر ٹوٹ پڑے ، اور چاٹ مصالحہ بردار انڈے کو نظر انداز کر دیا گیا۔ پھر انگلیاں چاٹتے ہوئے سب کفِ افسوس بھی ملنے لگے کہ تمام انڈے میٹھے ہی کیوں نہ بنا لئے گئے؟
کھانا کھانے کے بعد ایک  گروہ تھک چکا تھا وہ چارپائیوں کی نذر ہو گیا اور ہم چار لوگ  گاؤں کے  باہر سیر کرنے نکل گئے۔ رات کے تقریباََ 9 بج چکے تھے ۔پورا دن کاروبارِ زندگی میں مشغول اور محنت سے چُور تھک کر شاید گاؤں کے  تمام لوگ سو چکے تھے۔ مکمل خاموشی تھی ۔ گاؤں سے باہر جانے والی سڑک کے ایک طرف پہاڑ تھا اور دوسری طرف ڈھلوان!  یہیں سڑک کے کنارے پتھروں کا ایک جھرمٹ تھا۔ ہم وہیں زمین پر بیٹھ گئے۔ چاند اپنے جوبن پر تھا اور نورانی کرنیں ہر سو پھیل کر منظر کی لطافت کو مزید نکھار رہی تھیں ۔سامنے چیڑ کے نوکیلے پتوں والے دراز قد  درخت   اس نورانی منظر میں کسی سائے کی طرح معلوم ہوتے تھے۔ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور خاموشی اس قدر تھی کہ ہوا کی سنسناہٹ سنی جا سکتی تھی۔ ہوا کے جھونکے جب چیڑ کی ٹہنیوں سے ٹکراتے تو ٹہنیاں سرور سے جھومتی چلی جاتیں۔ دل  کرتا تھا کہ یہ رات کبھی نہ گزرے۔میں کافی دیر بیٹھا چیڑ کی  ٹہنیوں کو جھومتا دیکھ کر لطف اندوز ہوتا رہا اور سوچتا رہا کہ کتنے خوش نصیب ہیں وہ مقامات، جن کو ابھی تک انسان کےپاؤں نے نہیں روندا، روئے زمین پر انسان نے جہاں جہاں ڈیرے ڈالے ، نام نہاد ترقی کی بنا پر فطری خوبصورتی کا گلا گھونٹتا گیا۔ یہی چاند ہے، کلاں میں بھی ہے اور راولپنڈی میں بھی، مگر کلاں میں  اپنی آسائش  کی خاطر آلودگی، دھواں، شور اور گندگی پھیلانے والے انسان کم ہیں۔   میرے سامنے  موجود چیڑ کا درخت مزے میں مست جھوم رہا ہےجبکہ یونیورسٹی کینٹین  کے کنارے لگا چیڑ کا درخت  خاموش ہےاور ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کا منتظر   ہے۔   
نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔ناچاہتے ہوئے بھی ہمیں وہاں سے اٹھنا پڑا اور واپس جاکر ہم بھی سو گئے۔
صبح آنکھ کھولتے ہی کانوں میں سبحان للہ اور  ماشا اللہ کے الفاظ پڑے۔ لبوں پر مسکراہٹ طاری ہو گئی۔ سخاوت جو پہلے سے اُٹھ چکا تھا اور شاید رفع حاجت کی غرض سے کمرے سے باہر نکلا تھا ، باہر نکلتے ہی سبحان اللہ اور ماشا اللہ کے نعرے لگانا شروع ہو گیا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے کوئی بیش قیمت خزانہ ہاتھ لگا گیاہو یا رات کو خواب میں آنے والی دوشیزہ کو دفعتاََپنے سامنے پا کر فرطِ جذبات میں سبحان اللہ کے نعرے لگا رہا ہو۔  میں بھی اٹھ کر باہر تشریف لے گیا۔ باہر گیا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ سورج نکلنے کا منظر تھا۔ مگر کیا منظر تھا! کبھی سوچا نہ تھا کہ ایسے بھی سورج نکلتا ہو گا! سامنے پہاڑوں کی مٹی سورج کی روشنی سے چمک رہی تھی، سبزہ   دھلا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ جہاں سورج کی روشنی نہ پڑتی تھی وہا مٹی کا رنگ ذرا گہرا تھا۔ سوارج نکلنے کا اتنا صاف ، شفاف اور دل آویز نظارہ میں نے  کبھی نہ دیکھا تھا۔یوں لگ رہا تھا کہ جیسے  میں کوئی HD فلم دیکھ رہا ہوں۔میں یونہی منظر کی رنگینیوں میں کھویا ہوا تھا کہ رفع حاجت نے آ لیا۔   فارغ ہونے کے  بعد دیکھا تو کچھ لوگ ابھی تک سو رہے تھے۔ سوچا کیوںنہ ہلکی پھلکی ورزش کر لی جائے۔ میں جینز کی پینٹ زیب تن کئے ہوئے تھا اور سائیڈ جمپ کرنے لگا۔ اتنے میں ایک دوست نے پیچھے مُڑ کر دیکھنے کا اشارہ کیا۔ پیچھے مُڑ کر دیکھا تو  تھوڑی دوربارہ تیرہ سال کے دو بچے  یونیفارم زیب تن کئے ہوئے شاید سکول جارہے تھے اورمجھے یوں اچھلتا دیکھ کر زیرِلب مُسکرا رہے تھے ۔ میں ان کی شیطانی مسکراہٹ کو بھانپ چُکا تھا  ۔ میں نے  بھی  مُسکرانا شروع کر دیا۔ ان کی آنکھوں میں مجھے ایک موٹا تازہ  انسان جینز پہنے اچھل کود کی کوشش  کرتا نظر آیا  تو میری مسکراہٹ ہنسی میں تبدیل ہوگئی ۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے بھی بے اختیار ہنسنا  شروع کر دیا۔ نجانے کیوں مجھے ان بچوں میں اپنا بچپن ، جو کہیں کھو گیا ہے،نظر آ رہا تھا ۔ یونہی قہقہے لگاتے لگاتے وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
اس ٹھندے میٹھے جنگل میں گائے مزے سے چر رہے تھے۔
جب سب لوگ  بیدار ہو چکے تو  ناشتہ وغیرہ تیار کیا گیا۔ ناشتے کے بعد سب تیار ہو گئے اور جنگل کی سیر (ہائیکنگ)کرنے نکل پڑے۔ جنگل زیادہ گھنا نہ تھا، راستے میں جگہ جگہ خوبصورت چراہ گاہیں  آئیں۔ سبزہ کی بھرمار تھی، کہیں میدان آ جاتا پھر جنگل شروع ہو جاتا۔ راستے بھر میں  میرے دوست خوبصورت مناظر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے رہے اور میں اپنی یادداشت کے صفحوں پر نقش تحریر کرتاچلا گیا۔ ہم آلودگی، شور ، گنجان آبادی، خود غرضی سے بہت دور تھے اور قدرت سے بہت قریب! قدرت کتنی خوب صورت ہے؟ آج مجھے اپنی  انکھوں پر رشک ہو رہا تھا جن کی بدولت میں اس قدر خوبصورتی سے محظوظ ہو رہا تھا۔ راستے میں ایسی ایسی دل فریب جگہیں آئیں کہ خدا کے حضور سجدے میں گرنے کو دل کرتا تھا۔ میں سوچ رہا تھا، کہ اگر یہ جگہ اتنی خوب صورت ہے تو جنت کیسی ہو گی؟  ہم چلتے رہے ،  بھاگتے رہے ، گھومتے رہے، جب تک ہماری ٹانگوں نے ہمارا ساتھ دیا۔ آخر کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے بعد ہم نے ایک جگہ قیام کیا۔ ساتھ میں بسکٹ اور کھانے پینے کا دوسرا سامان لائے تھے۔ کھانے کے بعد میرے دوست ان خوشگوار لمحات کو کیمرے میں محفوظ کرنے میں مشغول ہو گئے اور
راستے میں ایک جگہ کھڑے ہو کر کھنچوائی گئی تصویر
میں اپنی ڈائری لے کر تھوڑا دور جا کر ان یادوں کو   اپنی تحریر میں سمونے لگا۔ اور یہ وہ آخری پیرا ہے جو میں نے وہاں بیٹھ کر لکھا۔
میں اس وقت ایک پتھر پر بیٹھا ہوں جو میرے حجم سے تقریباََِ 50 گُنا بڑ اہو گا۔اس کے ارد گرد بھی اس جیسے ، کچھ اس سے چھوٹے اور کچھ بڑے  پتھر ہیں۔ نجانے کتنے سالوں شاید صدیوں سے یہ پتھر ایک دوسرے کی ہمسائیگی میں یوں پڑے ہیں۔میرے آنکھوں کو سامنے ایک ندی ہےجو آخر کار بل کھاتی دریائے سواں میں جا گرتی ہے۔ دریائے سواں بھی بل کھاتا ہوا پہاڑ کی اوٹ میں چُھپ جاتا ہے۔ پہاڑی علاقوں کی یہ خصلت مجھے بہت بھاتی ہے، یہ "بل کھانے والی "خصلت! ندی ، دریا اور گاؤں کی گلیاں بھی بل کھاتی ہوئیں۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میرے پسینے سے بھیگے بدن سے ٹکراتی ہے تو  عجب سا لطف و سرو ر اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ میرے ارد گرد بالکل یکسر خاموشی ہے۔ بس ہوا کی سنسناہٹ ہے، یا کبھی کبھی بھنورے کی آواز سنائی دیتی ہے۔دل کرتا ہے کہ یہیں کا ہو جاؤں۔ یہ منظر ، یہ لمحہ کہیں بیت نہ جائے۔ کاش گھڑی کی سوئیاں ٹھہر جائیں اور میں یہیں بیٹھا رہوں۔ کاش یہ وقت کبھی نہ گزرے۔
راستے کا ایک اور منظر





جب ہم چلتے چلتے تھک چکے تو یہاں پڑاؤ کیا۔ سامنے دریائے سواں  اور ندی کا خوبصورت نظارہ تھا جسے کسی نے کیمرے میں محفعظ نہ کیا۔

------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------



 



2 تبصرے: