پیر، 9 جولائی، 2012

معافی کا معاوضہ۔۔۔

معافی کا معاوضہ۔۔۔

نیٹو سپلائی بحال ہو چکی ہے اور  نیٹو سامان  پاکستانی سیکیورٹی میں افغانستان جانا شروع ہو چکا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اِن ٹرکوں میں افغانیوں کے  لئے ٹماٹر ہیں یا دوائیاں، امریکیوں کا بحری بیڑہ ہے یا مرغیوں کے انڈے یا پھر افغانیوں کے کفن! میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ سپلائی بحال کیوں ہوئی؟ آپ  غلط  سمجھ رہے ہیں۔ میں بحالی کے خلاف نہیں ہوں۔ بحال ہونے سے پہلے یہ بند ہوئی تھی۔ میں اُس کے خلاف ہوں کہ یہ بند کیوں کی تھی؟
ایک  وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ امریکہ میں اس سال ٹماٹر کی پیداوار کم ہو گئی ہو یا دوایئاں مہنگی ہو گئی ہوں یا کسی وجہ سے مرغیوں نے انڈے نہ دیے ہوں اس لئے کچھ ماہ رُکی رہی مگر ہماری حکومت کچھ اور ہی کہتی ہے۔ وہ یہ کہ امریکہ نے پاکستان کی خود مختاری کا احترام نہیں کیا اور سلالہ میں فوجی جوان مارے۔ مگر میں انڈوں اور ٹماٹروں والی بات  کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں کیونکہ امریکہ نےپہلے کب ہماری خود مختاری کا احترام کیا ہے؟ اور کیا سلالہ سے پہلے "فرینڈلی فائر" کے بینر تلے پاکستانی فوجی نہیں مرتے رہے خاکم بدہن 'شہید' ہوتے رہے(انما الاعمال باالنیات)۔ نہتے لوگ نہیں شہید ہوتے رہے۔ ڈرون آئے دن پاکستانی  سرحدوں میں جیسے ہمارے دعوت نامے پر آکر خودمختاری کے محبت نامے پھینکتے ہیں!
ایک لمحے کے لئے  ٹماٹر وغیرہ کو بھول جاتے ہیں اور  حکومت کی بات مان لیتے ہیں کہ امریکہ نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی سرحد میں آکر فوجی شہید کئے۔میں نے شاید کسی امریکی فلم میں ہی ایک ڈائیلاگ سُنا تھا کہ "قانون تو بنائے ہی توڑنے کے لئے جاتے ہیں"۔ یہ فقرہ امریکہ پر اس حوالے سے جچتا ہے۔
 اس لئےاحتجاجاََ نیٹو سپلائی بند کر دی گئی۔ اور امریکہ سے اس بدمعاشی پر غیر مشروط معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا۔  اور نیٹو سپلائی کی بحالی کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ سپلائی تقریباََ سات ماہ بند رہی۔ امریکہ اس دوران بار بار افسوس کا اظہار کرتا رہا اور سیاستدان پھڑیں مارتے رہے کہ افسوس کافی نہیں معافی درکا رہے۔ پتا نہیں کیسے گزرے ہوں گے یہ جدائی کے سات ماہ! تمہیں کیا احساس ان کا؟ کہنے کو اسان ہے مگر گن کر دیکھو پورے 210 دن بنتے ہیں۔
اور اب وزیر خارجہ کے کہنے کے مطابق معافی مانگ لی گئی ہے۔ پتہ نہیں سفارتی اور وزارتی سطح پر اتنی منافقت کیوں ہوتی ہے؟معافی مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے اپنی غلطی تسلیم کر لی۔ مگر جیسے ہی امریکہ نے معافی مانگی  سپلائی بحال کر دی گئی گویا معافی نہ ہو سپلائی کھولنے کا آرڈر آیا ہو۔ اور اپنے ہی کہے کے مطابق پارلیمانی کمیٹی کو نظر انداز کر دیا گیا۔ارے جاہلو ! تم غلطی پر انعامات  دے رہے ہو۔اگر امریکہ نے اپنی غلطی تسلیم کی ہے تو ان سے مطالبہ کرو کہ اُن مجرموں کے خلاف کاروائی کریں جنہوں نے  یہ غلطی سر زد کی ہے۔ جو نیٹو فوجی یا عہدیدار اس میں ملوث تھے امریکہ یا عالمی عدالتوں میں اُن کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرو۔ کبھی ایساہوا ہے کہ کوئی آدمی غلطی تسلیم کرے تو اُسے انعام سے نواز دیا جائے۔ بس  سپلائی کھلنے کے بعد ملنے والی مدد نے تمہاری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لی ہے۔ اور ہاں امریکہ کا  جنگی بحری بیڑا جو گوادرسے شاید مچھلیاں پکڑنے آیا تھا وہ بھی واپس جا رہا ہے(میں نے اندازہ لگایا ہے کہ مچھلیاں پکڑنے آیا تھا کیونکہ کسی نیوز چینل نے اس کی موجودگی کی خبر نہیں دی اور فوج سمیت کسی سرکاری ادارے نے اس کی وضاحت نہیں کی تو کسی چھوٹے موٹے کام سے ہی آیا ہو گا)۔

 واہ بھئی واہ! جمہوریت کہتے ہو نا! ریفرنڈم کروا لیا ہوتا۔  جن شہیدوں کا نام لے کر تم نے سپلائی بحال کی تھی ہمیں ان کی ماؤں کا موقف سُناؤ۔ پو چھو اُن سے کہ کیا رائے ہے اُن کی تمہارے اس فیصلے کے بارے میں۔ اگر ان شہیدوں کی مائیں کہہ دیں تو پھر بھی ٹھیک! تم کہو گے کہ ملکوں کی پالیسیاں مائیں مرتب نہیں کرتیں تو کسی بھی پڑھے لکھے پالیسی ساز سے پوچھ لکر دیکھو کہ خارجہ پالیسی میں ہمسائیوں کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔
 وزیر خارجہ ! ہمسائیوں سے تعلقات خراب کرتی ہو ۔ کل  تم بھی چلی جاؤ گی امریکہ بھی چلا جائے گا۔ ہم اپنے ہمسائے کو کیا منہ دکھائیں گے۔کن بنیادوں پر ان سے تعلقات استوار کریں گے؟

1 تبصرہ:

  1. mahallah..such kaha

    ۔ کل تم بھی چلی جاؤ گی امریکہ بھی چلا جائے گا۔ ہم اپنے ہمسائے کو کیا منہ دکھائیں گے۔کن بنیادوں پر ان سے تعلقات استوار کریں گے

    جواب دیںحذف کریں