بدھ، 27 جون، 2012

کتابیں وہ اپنے آباء کی۔۔۔

کتابیں وہ اپنے آباء کی۔۔۔
آج میں نے اپنی گلی میں ہی اُسے پا لیا۔ میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔
"کیا حال ہے چوہدری صاحب؟"
اُس کے منہ سے چوہدری سُن کر مجھے چنداں حیرت نہ ہوئی کیونکہ میں جانتا تھا کہ اسے معلوم ہو چکا ہے کہ میں اُسے کچھ بیچنا چاہتا ہوں۔ ویسے بھی میں نے سن رکھا ہے کہ لوگ توضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں۔
"اللہ کا شکر ہے بھائی جان! ردی کا کیا ریٹ چل رہا ہے آجکل؟"
میں نے سیدھی کام کی بات کی۔
"کتابوں کی 12 روپے اور اخباروں کی 20 روپے"
میں سوچنے لگا کہ لوگوں کی نظر میں کتابوں کی بس اتنی ہی اہمیت ہے کہ ذرا پرانی ہو جائیں تو وزن کے لحاظ سے انہیں خریدا جاتا ہے۔وہ کتابیں جن کو پڑھ کر میرے خاندان کے بیسیوں لوگ آج اچھے عُہدوں پر فائز ہیں۔ وہ کتابیں جو انسان کو ایک گاؤں سے نکال کر کسی بڑے شہر کے دفتر کی کرسی پر لے جاتی ہیں، جو شیدے کو رشید صاحب بنادیتی ہیں اور انسان کو انسانیت سکھاتی ہیں، جن میں صدیوں کی سائنسی تحقیق کا نچوڑ، انسانوں اور معاشروں کے تجربات و نظریات کاخلاصہ ہوتا ہےفقط 12 روپے کلو! واہ رے بھائی صاحب کیا قیمت لگائی آپ نے؟ اور اخباریں جن میں آدھا وزن سیاستدانوں کی تُوتُو میں میں، اشتہاروں ،فلمی بدکاروں کے مشاغل اور کالم نگار اداکاروں کی تحریروں کا ہوتا ہے۔ اِن کی قیمت کتابوں کے ڈیڑھ گُنا سے بھی زیادہ۔
"جی باؤ جی! اندازا کتنی کتابیں ہوں گی؟"
میں چوہدری سے باؤجی کا سفر طے کر چُکا تھا۔
"کتابیں تو کافی ہیں"
"پندرہ کلو ہوں گی؟"
"ہاں اتنی تو ہوں گی"
میں اِن بیش قیمت اور انمول کتابوں کو یوں فقط 12 روپے کلو کے حساب سے نہیں بیچنا چاہتا تھا۔
"بھائی آپ کل آئیں گے ناں۔کل آکر لے جانا تب تک میں نکال کر رکھ لوں گا"
"کوئی بات نی باؤجی آپ تسلی سے نکال لیں میں یہیں بیٹھ کر انتظار کر لیتا ہوں"
"لیکن کتابیں ادھر اُدھر بکھری ہوئی ہیں اکٹھی کرنا پڑیں گی"
"چلیں میں آگے سے گیڑا(چکر) لگا آؤں ۔ ایک گھنٹے تک آ جاؤں گا تب تک آپ چھانٹی کر لیں"  گویا اُس نے مجھے مزید بےوقوف بناتے ہوئے کہا۔
 "ٹھیک ہے"  اور میں بےوقوف بن چُکا تھا۔
میں سیدھا اسٹور نما اُس کمرے میں پہ پہنچا جہاں کتابوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ میں نیچے بیٹھ گیا اور ایک ایک کر کے کتابیں کنگھالنے لگا۔
ہر قسم کی کتابیں تھیں؛ قانون کی کتابیں،انگریزی ادب  اور فلسفہ، شاہکار انگریزی ناول، بیس پچیس سال قبل کی بی-اے ،ایم-اے اور بی-ایس سی کی نصابی کتابیں، ٹریگنومیٹری، الجبرا،سائنس، فلسفہ اور نجانے کیا کیا۔ مگر اِن کتابوں کی بد قسمتی کہ یہ کسی لائبریری کے بجائے میرے گھر کے سٹور میں پڑیں تھیں۔
اصل میں یہ ہمارا خاندانی آبائی گھر ہے۔ہمارے والد سے پہلے یہاں ہمارے دادا اپنے کنبے کے ہمراہ رہائش پذیر تھے اور ان سے پہلے اُن کے والد اور دادا۔ہمارے خاندان اور رشتہ داروں میں جو بھی تعلیم حاصل  کرتا وہ فارغ التحصیل ہو کر اپنی نصابی اور غیر نصابی کُتب یہیں چھوڑ جاتا۔ اسی طرح کرتے کراتےمیرے دادا کی وفات کے بعد جب میرے والد اور اُن کے بھائیوں کو ایک دوسرے پر اعتبار نہ رہا اور انہوں نے دادا کی چھوڑی ہوئی جائیداد آپس میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ آبائی گھر میرے والد کے حصے میں آ گیا اور اِس کے ساتھ ہی یہ کتابوں کی دولت بھی۔یہ کتابیں کم از کم پچھلے 20 سال سے کسی کونے میں پڑیں تھیں ۔3 سال پہلے جب گھر کےسامان کو اِدھر اُدھر کیا تو برآمد ہو ئیں۔ تب سے یہ ہمارے لئے دردِسر بنی ہوئی ہیں کہ اِن بیش قیمت کتابوں کا کیا کریں۔ اِن میں سے اکثر کتابیں میری دادی مرحوم کے بھائی کی ہیں جو کہ اپنے زمانے میں جھنگ کے جانے مانے اور اعلٰی پائے کے وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق بھی رکھتے تھے۔میں نے اپنے بڑوں سے سُنا ہے کہ جب وہ اپنے زمانے میں وکالت کرتے تھے تو اُس وقت پورے جھنگ شہر میں صرف تین کاریں ہوا کرتی تھیں جن میں سے ایک اُن کی تھی۔اُن کی اکثر کتابیں کسی نہ کسی طرح ہمارے گھر پہنچ گئیں۔
میں ایک ایک کر کے کتابوں کو دیکھتا رہا۔ کچھ تو دیمک کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں اور بالکل ناکارہ ہو چکی تھیں۔کچھ خراب ہونے کو تھیں اور کچھ اندر سے بالکل نئی نویلی تھیں مگر اِن کی جِلدیں خاک آلود اور بوسیدہ ہو چکی تھیں۔ ان میں میرے چچا زادوں(جو اب بر سرِروزگار اور سربرہِ خاندان ہیں)کی زمانہء طالبعلمی کی کتب بھی تھیں اور ان پر اُن کے ذوقِ مصوری کے آثار بھی موجود تھے۔
اچانک ایک کتاب پر میں اپنے والد کا نام پڑھ کر رُک گیا۔یہ ان کے زمانہءطالبعلمی کی کیمسٹری(بی-ایس سی آنرز) کی کتاب تھی۔ میں نے اِس کتاب کی طائرانہ ورق گردانی کی تو مجھے اِس میں سے ایک رسید ملی جس پر اِس کتاب کی قیمت درج تھی۔ میں پڑھ کر حیران ہو گیااور شاید آپ بھی ہو جائیں!اُس کتاب کی قیمت فقط پندرہ روپے تھی حالانکہ وہ لندن کے ایک انٹرنیشنل پریس کی چھپی ہوئی تھی۔میں نے وہ اپنے والد کو بھی دکھائی۔اگر آج اُس معیار کی کتاب خریدی جائے تو 1500 سے کم تو بالکل نہ ملے گی۔اور تھوڑی دیر پہلے مجھے ایک خریدار اِس کی قیمت 12 روپے کلو کے حساب سے بتا رہا تھا۔
خیر کافی سوچ بچار کے بعد میں نے اپنے بہن بھائیوں کی پرانی نصابی کتابیں جو اب کسی کام کی نہ تھیں انہیں اپنے آباءو اجداد کی دیمک زدہ کتابوں کے ساتھ شامل کر دیا۔ اور اسی طرح کنگھالتے کنگھالتےمیں نے کئی اور کتابیں بھی جو کہ کسی نصاب کا حصہ تھیں(سوائے اسلامیات کے) اور ہمارے مزید کسی کام نہ آسکتی تھیں اِن کو بھی ساتھ ملا دیا۔البتہ میں نے عمرانیات،انگریزی فلسفہ،ناول اور دوسری کئی مفید قسم کی کتابوں کو محفوظ کر لیا۔
ٹھیک ایک گھنٹےبعد وہ ردی والا آیا تو کتابوں کا وزن کیا گیا۔کُل ملا کر 20 کلو ہوا۔ اُس نے میرے ہاتھ میں 240 روپے تھما دئے۔ اور میں بوجھل قدموں کے ساتھ گھر واپس آگیا۔ اِس موقع پر نجانے کیوں مجھے اقبال کا وہ شعر یاد آ گیا:
مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آباءکی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
مگر میرے آباء کے موتیوں میں سے جو سب سے زیادہ قیمتی تھے ابھی بھی میرے گھر کے سٹور میں محفوظ ہیں۔

2 تبصرے:

  1. بہت عمدہ انداز بیاں ہے اور خوب لکھا بھائی آپ نے یہ کتابیں جن کو اس سے محبت ہوتی ہے وہ اس کو خوب قرینہ سے دل و جان سے عزیز رکھتے ہیں اور جو اس کی قدر نہیں جانتے وہ بوجھ محسوس کرتے ہیں میرے بڑے بھائی نے بھی ایک سے ایک مہنگی اسلامی کتابوں کو خرید رکھا مگر جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے بچوں نے اردو سے ناواقفیت کی وجہہ سے ردی میں سارے کتابیں نکل کر گھر کی صافئی کی یہ خبر نے مجھے بہت دکھی کردیا تھا آج پھر وہ بات یاد آگئی آپ کے اس مصمون سے ۔ اللہ ہمارے بعد ہمارے وارث کو سمجھداری وہوش مندی دے۔

    جواب دیںحذف کریں