ہفتہ، 6 اکتوبر، 2012

مجھے کوئی عنوان نہیں ملا!

السلام و علیکم!۔


ہمارا ایک ہمسائیہ ہے۔ ہمارا بہت خیال رکھتا ہے ۔ ہماری تفریح کے لئے اپنی زبان کو پسِ پشت ڈال کر ہمارے لئے اردو میں اچھی اچھی فلمیں بناتا ہے۔  ہمارے اداکاروں اور موسیقاروں کو اپنے ہاں بُلا کر ان کو اپنے فن کے اظہار کے مواقع دیتا ہے۔ بلکہ اب تو اس نے ہماری کمزور معیشت کو مضبوط کرنے کا عزم بھی کر لیا ہے اور اب وہ تجارتی سامان کے ساتھ ساتھ سبزیاں اور اناج بھی ہمارے ملک میں بھیج رہا ہے۔ آجکل بازار میں بڑے بڑے کیلے تو آپ نے دیکھے
ہی ہوں گے سُنا ہے  یہ بھی وہیں سے درآمد ہو رہے ہیں۔ ویسے جب سے میں نے  بازار میں یہ کیلے دیکھے ہیں  ان کی قیمت سن کر ہی پیٹ بھر جاتا ہے۔ 
ویسے بھی ہمسائے کا شماراب دنیا کی بڑی طاقتوں میں ہونے لگا ہے۔ ہو بھی کیوں ناں! ہمسائیہ جی نے کام جو بڑے بڑے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ سری لنکا میں بد امنی پھیلا کر سیا حت کے بڑے شعبے کا ستیا ناس کرنا اور پاکستان میں سری لنکا کی ٹیم پر حملہ کروا کر  خود کرکٹ کا بے تاج بادشاہ بننا کوئی چھوٹا کام نہیں ہے۔ اور   ایک تیر سے دو  دو شکار! سری لنکا کی سیاحت  کا بیڑہ غرق ہو گا تو  ضرور بھارت کی سیاحت کو فروغ ملے گا۔ اور پاکستان میں کرکٹ لولی لنگڑی ہو گی تو ضرور انڈیا کے گراؤنڈ کھچا کھچ بھریں گے۔ آئی پی ایل اور ورلڈ کپ کی میزبانی ! وہ بھی اکیلے اکیلے!





افغانستان میں پاک امریکہ مصروفیت اور پاکستان کی پھنسی گردن کا بھی تو فائدہ اُٹھانا تھا۔  اسرائیل کے فلسطین والے تجربات سے استفادہ کر کےر ہنمائی لی اور لائن آف کنٹرول پر ایک باڑ کھینچ ڈالی جس کی مختلف تصاویر اور ویکی پیڈیا سے مختلف تعارف مندرجہ ذیل  ہے:
"انڈیا  نے  740 کلومیٹر طویل لائن آف کنٹرول میں سے 550 کلومیٹر  لمبی رکاوٹی باڑ تعمیر کی ہے۔ ان رکاوٹوں میں دو کانٹے دار باڑیں یا جالیاں شامل ہیں جن کی اونچائی 8 سے 12 فٹ تک ہے۔ ان میں کرنٹ چھوڑا جاتا ہے اور یہ باڑیں حرکت محسوس کرنے والے سینسرز(حسئیے) اور الارم وغیرہ کے ایک نیٹ ورک سےلیس ہیں۔ جب بھی کوئی  ان کو عبور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو فورا بھارتی فوج خبر دار ہو جاتی ہے۔ "      (وکی پیڈیا)
ان دونون جالیوں کے درمیان تقریبا 12 فٹ کا فاصلہ بھی ہے جن میں تیز بلیڈوں پر مشتمل تاروں کو سپرنگ کی طرح گھما کر رکھا گیا ہے۔
 بس جی اب کیا کریں۔ ایک وقت میں ایک دشمن ہی کافی ہوتا ہے۔ اب پوری دنیا کو تھوڑی اپنا دشمن بنانا ہے۔ کر لینے دیں موجیں ہمسائیہ صاحب کو! اورخوش رہیں آپ بھی۔
اور زیادہ سوچئے گا مت! سوچیں گے تو دل  کہے گا کہ فلمیں نہ دیکھو ، گانے نہ سُنو یہ بھی تو ثقافتی جنگ کا حصہ ہے!  بس  عیش کریں چار دن کی زندگی ہے۔ موج مستی کر کے گزار لو۔ ویسے بھی سُنا ہے کہ مرنے کے بعد سب دنیا میں رہ جائے گا اور دو چیزیں ہی ساتھ    جائیں گی ۔ ایک اعمال اور دوسرا مرشد! مرشد ہے تو کیا ڈر؟
 یہ سب تو ہوتا رہتا ہے۔ جن کا کام ہے وہ جانیں آپ کو اس سے کیا؟ آپ بس "دس کا دم" ، "کون بنے گا کروڑ پتی" اور "سنگیت کی جیت " دیکھتے رہیں۔  سُنا ہے یہ سب کچھ اب پاکستانی 
چینلوں پر بھی نشر ہو رہا ہے۔ انڈیا کی کافی نئی فلمیں آپ کی منتظر ہیں!
اور پاکستان کے ایک مشہور خبر رساں ادارے کی ویب سائٹ پر اپنی ثقافت کی خبریں بھی ملاحظہ کریں:


معذرت کے ساتھ : اسد حبیب۔ 

5 تبصرے:

  1. ماشاالله
    بہت اعلیٰ

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاءاللہ کافی عمدہ پوسٹ ہے۔۔۔۔ اگر میں یہ لکھتا تو عنوان لگاتا کہ:
    ہمارا میڈیا اور اسکی ثقافتی بھڑوت گیری

    جواب دیںحذف کریں
  3. تصویر کشی اچھی کی ہے ۔ مگر اسی پاکستان میں میرے جیسے پاگل بھی رہتے ہیں جنہوں نے بھارت کی بنی آخری فلم آن دیکھی تھی جب شاید آٹھویں یا نویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ کسی نے دکھا دی تھی یہ کہہ کر کہ پہلی اُردو ٹیکنی کلر فلم ہے ۔ رہا بھارتی مال تو ایک بار 1964ء میں رومال خریدتے وقت دکاندار نے بتایا نہیں تھا کہ بھارت کے بنے ہوئے ہیں ۔ بعد میں معلوم ہوا تو واپس کر دیئے تھے ۔ دکاندار نے کہا تھا سب پاکستانی ہی خرید کر لے جاتے ہیں واپس کر دیں بک جائین گے ۔ اس سال اسلام آباد اتوار بازار سے کیلے خریدے ایک ہفتہ بعد اتوار بازار سے ہی معلوم ہوا کہ وہ بھارت سے درآمد ہوئے تھے تو اس کے بعد پہلے پوچھنا واجب ہو گیا کہ پاکستانی ہیں نا ؟

    جواب دیںحذف کریں
  4. Ahem Ahem Bro! Well written! Nice to read from you after a much long break!

    -Ayesha

    جواب دیںحذف کریں
  5. آپ سب کی پسندیدگی کا شکریہ!۔
    یہ بس میرے کچھ مشاہدات اور جذبات تھے جودل میں پریشر کُکر کی طرح اُبال دے رہے تھے۔ بس ان کو اُگل دیا۔ اب ذرا بہتر محسوس کر رہا ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں